باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 6 ستمبر، 2018

شعور کیا ہے؟


کچھ سوال سوچ لیتے ہیں۔ کیا خودکار روبوٹ جو اپنا راستہ خود تلاش کر سکتا ہو، باشعور ہے؟ کیا پالتو کتا جو جذبات کا اظہار کر سکتا ہے اور خود سے فیصلے بھی لے سکتا ہے، کیا شعور رکھتا ہے؟ ایک نوزائیدہ بچہ جو دودھ پی کر لڑھک کر سوگیا ہے، اسے باشعور کہیں گے؟ یا ایک سوتے ہوئے شخص کا شعور جاگتے شخص سے فرق ہے؟
اس بارے میں سچ یہ ہے کہ ہمیں ابھی ہمارے پاس شعور کی معروضی تعریف یا اس کی پیمائش کا طریقہ یا فریم ورک نہیں۔ مادے یا توانائی کے بارے میں تفصیلی اور کامیاب فریم ورک موجود ہیں مگر ذہن کے بارے میں ان کا متوازی نہیں۔ مگر یہ صورتحال اب بدل رہی ہے۔
اس دور کی مشترکہ زبان معلومات ہے۔ کتابیں، تصاویر اور فلمیں ہوں یا ہماری جینیاتی سٹرکچر، ان سب کو معلومات کے سٹرکچر میں ڈھالا جا سکتا ہے جسے صفر اور ایک کی صورت میں بھی ڈھالا جا سکتا ہے. یہ معلومات خود کسی میڈیم کی محتاج نہیں۔ چاہے یہ کمپیوٹر کی یادداشت میں برقی چارج کے طور پر رہے یا کسی صفحہ پر لکھی گئی لکیروں میں۔ ویسے ہی معلومات اعصابیوں خلیوں کے جوڑوں میں بھی حالت کے طور پر رہ سکتی ہے۔
کمپیوٹر کے ابتدائی دنوں سے ایک بحث رہی کہ ذہن کو معلومات کی حالتوں سے سمجھا جا سکتا ہے مگر اس خیال کو کسی بھی نظریے میں بدلنے کے ذرائع کی کمی رہی۔ پہلی بار گیولیو ٹنونی نے ایک مربوط نظریہ پیش کیا جس کو انٹیگریٹڈ انفورمیشن تھیوری (مربوط معلومات کا نظریہ) کہا جاتا ہے۔
یہ نظریہ دو بنیادوں پر کھڑا ہے۔ ایک یہ کہ شعور کی حالتیں ممتاز ہیں اور معلومات سے بھرپور ہیں۔ دوسرا یہ کہ یہ معلومات مربوط ہے۔ کوشش بھی کی جائے تو ایک حالت کے ٹکڑے نہیں کئے جا سکتے۔ یعنی اگر آپ اپنے دوست کو روتے دیکھیں تو یہ نہیں کر سکتے کہ چہرہ دیکھ لیں اور رونے کو نوٹس نہ کر یں، یا کسی منظر کا ایک حصہ دیکھ کر یاد رکھ لیں اور دوسرا چھوڑ جائیں، تو جو بھی معلومات ہے وہ مکمل اور ناقابلِ تقسیم ہے۔
اس مربوط معلومات اور شعور کی اکائی کے پیچھے اعصابی نظام کے بہت سے حصے مل کر کام کرتے ہیں۔ جب یہ تعلق منقطع ہونا شروع ہو جائے، جیسا کہ نیند یا بے ہوشی کی حالت میں ہوتا ہے، تو شعور مدہم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
اگر منقسم دماغ والے مریٖضوں کو دیکھیں جن کے دماغ کے دو حصوں کا رابطہ مرگی کے دوروں کے علاج کے لئے منقطع کیا جاتا ہے تو یہ نظر آ جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے شعور بھی دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اس لئے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ شعور کے لئے اکائی کی صورت میں ممتاز حالتوں کا ربط درکار ہے۔ ایک کمپیوٹر ہارڈ ڈسک میں کیپیسیٹی ذہن سے زیادہ ہو گی مگر یہ اکائی کی صورت میں جڑی نہیں۔ اس ہارڈ ڈسک میں معلومات صفر اور ایک کی صورت میں ہے اور اس میں محفوظ تصاویر سے کمپیوٹر یہ اندازہ آسانی سے نہیں کر سکتا کہ اس میں محفوظ تصاویر ایک لڑکی کی ہیں جو بچپن سے بڑی ہوتی ہوئی اب ٹین ایجر بن چکی ہے۔ بائیولوجیکل ذہن کم انفارمیشن رکھنے کے باوجود ان کو بہت آسانی سے یکجا کر سکتا ہے۔ ایسا نیورونز کے کراس لنک ہونے کی وجہ سے ہے، جتنے لنکس بڑھتے جاتے ہیں، وہی معلومات اتنی معنی خیز ہوتی جاتی ہے۔ ان سے ٹنونی یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ انٹیگریٹڈ انفارمیشن کی پیمائش ہی شعور کی پیمائش ہے۔
ان خیالات کو ریاضی کی زبان میں انفارمیشن تھیوری کے تصورات کے طور پر بتایا جا سکتا ہے اور اصولی طور پر ان کی پیمائش کسی بھی چیز کے لئے کی جا سکتی ہے۔ بائیولوجی میں کسی ایک دماغ کے نیورون، ایکزون، ڈئنڈرائٹ اور سائنیپسز کو دیکھتے ہوئے اس انٹیگریشن کی پیمائش کرنا ممکن ہو سکے گا۔ اس سے جو نمبر نکلے گا جو اس نیٹ ورک کی حالت کی پیمائش کر دے گا۔ اسے یوں کہہ لیں کہ ان کے اتحاد کا نمبر ہو گا۔ جتنا انٹیگریٹڈ سسٹم ہو گا، اتنا یہ اتحاد زیادہ ہو گا اور اتنا ہی یہ نمبر۔ اور یہ نمبر شعور کی حالت بتائے گا۔
اس نظریے سے ہمیں کئی مشکل سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں۔ سیریبلم، جو کہ دماغ کے پچھلے حصے میں ہے، اس میں نیورونز کی تعداد سیریبرل کورٹکس سے زیادہ ہے۔ اگر سیریبلم کام کرنا چھوڑ دے تو کئی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں مگر مجموعی طور پر شعور پر اثر نہیں پڑتا جب کہ کورٹکس یا تھیلیمس شعور کے لئے بہت ضروری ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ مربوط معلومات کا نظریہ اس کا جواب اس حصے کی سرکٹ کی پیچیدگی کے فرق سے دیتا ہے۔
اسی طرح گہری نیند میں اور جاگتی حالت میں انفرادی خلیے کی ایکٹیویٹی میں فرق نہیں آتا مگر ان حالتوں میں شعوری کیفیت کے فرق کا جواب اس نظریے سے مل جاتا ہے۔
اس نظریے سے یہ بھی وضاحت ہو جاتی ہے کہ شعور کے لئے نہ کوئی حس چاہیے اور نہ ہی کوئی آوٹ پٹ۔ یہ خود اپنے اندر ایک ڈائنامک انٹیٹی ہے اور اسی میں کنیسر کے مریض کی تکلیف، بچپن کی یادیں اور مراقبہ کرتے شخص کا سکون پایا جاتا ہے۔ آسکر وائلڈ کی تشریح کی جائے تو گلاب کی مہک، سیب کی سرخی اور کوئل کی آواز انہیں اسبابی تعاملات میں ہی موجود ہیں۔
اس پیش کردہ نظریے کی تفصیل مندرجہ ذیل لنکس میں دیکھ لیں۔
ڈس کلیمر: آئی آئی ٹی ابھی شعور کی مکمل وضاحت نہیں کرتا لیکن اس بارے میں اب تک کی بہترین سائنٹفک تھیوری ہے۔ یہ 2004 میں پہلی بار پیش کیا گیا اور اسے بہتر کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ اس کی تیسری ریویژن 2014 کی ہے۔ شعور کے بارے میں ہونے والا بہتر کام ابھی تک یہی ہے. اسے سمجھ کر آپ اس موضوع پر ہونے والے کام اور سمت سے متعارف ہو سکتے ہیں۔ لکھی گئی معلومات کرسٹوف کوک کے آرٹیکل کی ہیں جسے آپ اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔
https://www.scientificamerican.com/…/a-theory-of-conscious

1 تبصرہ:

  1. FB se blog tak pori post read ki but shaour ko smaj nahi saka he asal me ye he kiya or iski asal jaga kaha he mere liye abi tak ek ? mark he kiya aap meri help ker sakte hen ise or mazeed samjane me. Please Regards, Kishore Ramjee Thontia

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں