باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 5 ستمبر، 2018

وہ جو نہیں جانا جا سکتا



ذہن میں اٹھتے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش ہماری ترقی کی بنیاد رہی ہے اور جب کوئی کسی ایسے سوال سے پالا پڑے جس کا جواب موجود نہ ہو تو وہ ہمیں ہمیشہ تنگ کرتا ہے۔ ہمارے اس فطری تجسس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ ہم غلط جواب تسلیم کر لیتے ہیں لیکن یہ ماننا کہ جواب موجود نہیں تسلیم کرنے سے ڈرتے ہیں۔ اگرچہ سائنس کی ہونے والی ترقی پرانے سوالوں کے جواب دیتی ہے لیکن ساتھ نئے سوال بھی کھڑے کر دیتی ہے۔ کیا کچھ سوال ایسے بھی ہیں جنہیں ہم کبھی نہیں جان پائیں گے؟

سوالات کی درجہ بندی کی جائے تو وہ اس طرح سے ہوں گے۔

وہ جن کے جواب ہم جان گئے ہیں۔ یہ وہ علم ہے جو ہم تعلیمی نصاب میں پڑھتے ہیں۔ جن کے جوابات میں زیادہ اختلاف نہیں پایا جاتا۔ یہ دنیا کے تعلیمی اداروں میں مختلف کورسز کی شکل میں پڑھائے جاتے ہیں۔

وہ جن کے جوابات کا ہمیں علم نہیں۔ کچھ کے بارے میں ہمارے خیالات ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات کی تلاش میں پوری دنیا کے تحقیقاتی اداروں میں کام ہو رہا ہے۔ کیا ان کے جواب ہم ڈھونڈ سکیں گے اور اگر ہاں تو کب۔ یہ وقت ہی بتائے گا۔

وہ جن کو کبھی نہیں جانا جا سکے گا۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ان کے حتمی جواب دینا ناممکن ہو گا۔

وہ سوال جو ابھی ہمارے ذہن میں آئے ہی نہیں لیکن بڑھتا علم ہمیں ان سوالات تک پہنچائے گا۔

ایک جھلک ان میں سے تیسری قسم کے سوالات کی۔

بڑے سکیل پر۔ قابل مشاہدہ کائنات کے باہر کیا ہے؟ روشنی کی رفتار ہمارا مشاہدہ محدود کرتی ہے اور ہمارے پاس اس سے فرار کا ذریعہ نہیں۔ اسی طرح یہ سوال کہ سو نوری سال دور جسم آج سے پچاس سال قبل کس حال میں تھا دینا ناممکن ہے۔

چھوٹے سکیل پر۔ ایک وقت میں ایٹم ہمارے علم کی آخری حد تھی۔ پھر سب الیکٹران اور نیوکلیس سے واقفیت ہوئی۔ پھر اس سے آگے۔ مستقبل میں شاید اس سے بھی آگے جا سکیں۔ لیکن کیا ہم آخری پرت تک پہنچ چکے ہیں؟ کیا پلانک لینتھ سے نیچے بھی کچھ ہے؟ اس کا جواب کبھی نہیں دیا جا سکے گا۔

مستقبل۔ کائنات خود رینڈم ہے یا تعینی، اس بحث سے قطع نظر اس پر اتفاق ہے کہ مستقبل کی پیشگوئی ہمیشہ امکانات کی بنیاد ہر ہو گی۔ اس کا ریاضیاتی ثبوت تھیوری آف کیاوس سے ملتا ہے اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس آلات کی یا ذہانت کی کمی ہے۔ اس کی آسان مثال ایک پانسے سے لے لیں جو ایک آسان ترین سسٹم ہے۔ ایک میٹر کی بلندی سے سخت سطح پر پھینکے جانے والا ڈائس کس رخ گرے گا، اس کا امکانی گراف ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ابتدائی کنڈیشنز پر ڈیسیمل کے چھٹے حصے پر ہونے والی تبدیلی سب کچھ بدل دے گی۔ اس سے پیچیدہ سسٹمز پر جائیں تو پھر بہت جلد ہم کائنات کی انفارمیشن کی حد کو پہنچ جاتے ہیں۔ اسی لئے مستقبل کی ہر پیشنگوئی پرابیبلٹی کے ساتھ لکھی جاتی ہے۔

ماضی۔ اپنے ماڈل میں ہم کائنات کے آغاز کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ اس سے پیچھے کا سفر جو ابتدا اور ارتقا کو یکجا کر سکے آسان نہیں لیکن ممکن ہے۔ ابتدا سے پیچھے کے جواب تک نہیں پہنچا جا سکے گا جس کی وجہ سپیس ٹائم کا جبر ہے۔

ریاضی۔ ریاضی میں گوڈیل کمپلیٹنس حاصل نہیں کی جا سکے گی جس کی وجہ سے رائمین ہائیپوتھیسز اور گولڈباک کنجکچر ہماری پہنچ سے باہر رہے گا۔

شعور۔ اس پر علم میں بہتری آ رہی ہے لیکن اس کی آخری حد تک نہیں پہنچا جا سکے گا جس کی ایک وجہ ہمارا اپنا شعور ہے اور وہ انفرادی ہے۔ یعنی کہ ہم مشترک زبان تو بولتے ہیں لیکن ایک ہی لفظ اور ایک ہی خیال دو مختلف ذہنوں میں مختلف نقشہ بناتا ہے۔

کوانٹم فزکس۔ کوانٹم ورلڈ کا ایک اسرار ہے جو ہائیزنبرگ کے اصول میں ملتا ہے۔ فزکس کے باقی اسرار جانے جا سکیں گے لیکن اس اسرار سے پردہ نہیں اٹھایا جا سکے گا۔

نوٹ: یہ سوالات لئے گئے ہیں سر مارکس ڈو ساؤٹوائے کی کتاب "وہاٹ وی کین ناٹ نو" سے۔ مارکس ڈو ساؤٹوائے آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں اور سمیونی پروفیسرشپ فار پبلک انڈرسٹینڈنگ آف سائنس کے طور پر بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جس کے لئے ان کا نو سال قبل انتخاب ہوا تھا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں