باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 5 مئی، 2019

بھڑ، مکھی اور اینٹی بائیوٹک


یورپ کے ایک باغ میں گرمیوں کی ایک روشن دوپہر ہے۔ ایک شہد کی مکھی ایک پھول سے اڑی اور دوسرے کی طرف روانہ ہوئی۔ اچانک، اس کے اوپر اڑنے والے ایک سیاہ اور زرد کیڑے نے غوطہ لگایا اور اس کی طرف چھپٹا۔ اس نے ہوا میں اڑتے ہوئے ہی اپنے ڈنک سے اس شہد کی مکھی کو ڈس لیا۔ یہ حملہ آور بی وولف ہے۔ ایک بڑی اور طاقتور بھڑ۔ اس کے ڈنک نے اپنے شکار کو مفلوج کر دیا ہے۔ یہ اس کو گھسیٹ کر اپنے زیرِ زمین بنے بل کے اندر لے گئی۔ یہاں پر کچھ اور شکار ہوئی شہد کی مکھیاں اسی طرح پڑی ہیں۔ زندہ، مگر ہلنے سے قاصر۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اس بھڑ نے انڈے دئے ہوئے ہیں۔ اب بچوں کے لئے کافی خوراک جمع ہو گئی ہے۔ جب انڈوں سے ننھے منے بچے نکلیں گے تو ان کے لئے ضیافت کا کافی سامان موجود ہے جو ان کی ماں ان کے لئے چھوڑ کر جا رہی ہے۔

جب اس بی وولف نے یہ بل بنایا تھا تو ایک اور کام کیا تھا۔ انڈے دینے سے پہلے بل کی چھت کی مٹی کے ساتھ اپنا سر لگایا تھا اور اس کے اینٹینا میں سے ایک سفید پیسٹ نکلی تھی۔ ویسے ہی جیسے ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوب سے ٹیوب نکلتی ہے۔ اس کے بعد اپنا سر دائیں اور بائیں گھما کر اس پیسٹ کی تہہ لگا دی تھی۔ یہ ننھے بچوں کے لئے نشانی تھی کہ جب اس بل سے نکلنے کا وقت آئے گا تو نکلنے کا راستہ کدھر سے ہے۔

مارٹن کیلٹن پوتھ ان بھڑوں کو سٹڈی کر رہے تھے۔ انہوں نے اس نکلنے والے سفید مادے کا خوردبین کے نیچے معائنہ کیا تو حیران رہ گئے۔ یہ جراثیم سے بھرا پڑا تھا۔ ایک بھڑ اپنے اینٹینا سے جراثیم کی پلٹن نکال سکتی ہے؟ ایسا پہلے نہیں سنا گیا تھا۔ اس سے بھی عجیب ان جراثیم کی آبادی تھی۔ یہ سب بالکل ایک کی طرح کے تھے۔ تمام بی وولف اپنے اینٹینا سے سٹریپٹومائیسز کے ایک ہی سٹرین کا اخراج کرتی ہیں۔

سٹریپٹومائیسز وہ والے مائیکروب ہیں جو دوسرے جراثیم کو مارنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ہم جو اینٹی بائیوٹکس بناتے ہیں، ان میں سے دو تہائی کا سورس یہی مائیکروب ہے۔ ماں اپنے بچوں کے لئے اینٹی بائیوٹک چھڑک کر جاتی ہے۔ اس کے بچوں کو ان کی ضرورت ہے۔ جب بچے اپنے لئے رکھی تمام شہد کی مکھیوں کا صفایا کر لیتے ہیں تو اپنے آپ کو ریشمی کوکون سے ڈھک لیتے ہیں۔ یہ تمام سردیاں اسی حالت میں گزاریں گے۔ نو مہینے تک یہ اس گرم مرطوب کمرے میں رہیں گے۔ ایسا ماحول حملہ آور پیتھوجینک بیکٹیریا اور الجی کے لئے موافق ہے۔ ماں کی لگائی گئی پیسٹ ان سے بچاوٗ لئے ضروری تھی۔

جب کیلٹن پوتھ نے ان بچوں کی بنائی گئی کوکون کو خوردبین کی نیچے رکھ کر دیکھا تو وہ اپنی بنے گئے ان لحافوں میں ان اینٹی بائیوٹک مائیکروب کو شامل کر لیتے تھے۔ جب کیلٹن پوتھ نے اس پیسٹ کو ہٹا دیا تو یہ بچے اسے شامل نہ کر سکے اور تقریبا تمام بچے ایک مہینے کے اندر اندر فنگس کی انفیکشن کا شکار ہو کر مر گئے۔

بہار آئی گئی۔ یہ بچے اپنے اینٹینا میں انہی جراثیم کی فوج بٹھا لیں گے، اس بل کو کھود کر باہر نکل جائیں گے۔ شہد کی مکھیوں کا شکار کریں گے اور اپنے جان بچانے والے جراثیم اپنی اگلی نسلوں کو منتقل کریں گے۔

بی وولف، شہد کی مکھیوں اور سٹریپٹومائیسز کا یہ باہم رقص زندگی کا رقص ہے۔ اگر ماں یہ سٹریپٹومائیٹ اگلی نسل میں منتقل نہ کر سکی تو اس کی نسل نہیں بچے گی۔ اگر یہ سٹریپوٹیومائیٹ دوسرے جراثیم کو مار کر اپنے میزبان کے بچوں کو محفوظ نہ رکھ سکے تو یہ ان کے ذریعے آگے نیہں بڑھ سکیں گے۔ شہد کی مکھی نے شکار سے بچنا کے طریقے تلاش کرنے ہیں، بی وولف نے شکار میں مہارت حاصل کرنا ہے۔ زندگی کی اس کورئیوگرافی میں اپنا اپنا کام کر لینے کا پریشر سب پر ہے۔ اپنے کام کو، اپنی مہارت کو بہتر سے بہتر کرنا کا پریشر سب پر ہے۔

یہی زندگی کی خوبصورتی کی وجہ ہے۔ یہی فطرت کا اصول۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں