باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 12 جولائی، 2019

سائنس ۔ فزکس سے آگے



سائنس کے بارے میں کئی مرتبہ لوگوں کا تصور فزکس یا ایسے شعبوں کی وجہ سے خراب ہو جاتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف عام لوگوں کا نہیں بلکہ ایسے شعبوں سے منسلک کئی سائنسدانوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ “سائنس تجربے کے ذریعے مفروضات کو کنفرم کرنے کا نام ہے”۔ “ماڈل بنا کر مستقبل کی پیشگوئی کرنے کا نام سائنس ہے”۔ “سائنس میں مقصد کا کوئی کام نہیں”۔ اگر کسی سے ایسے یک سطری فقرے سنیں تو سمجھ لیں کہ ان حضرت کو سائنس کے بارے میں ابھی سمجھ کشادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر طرح کے علم کو ڈھونڈنے کا اپنا طریقہ ہے۔ احتیاط سے، شواہد سے، جانچ پرکھ کر اور اپنے طریقہ کار کو سب کے سامنے رکھ کر سائنس کا علم حاصل کیا جاتا ہے اور اس کا محض ایک طریقہ نہیں ہے۔

مثال کے طور پر آسٹرونومی، کلائیمیٹولوجی، ایکولوجی، ارتقائی بائیولوجی، جیولوجی، پیلینٹولوجی نیچرل سائنسز کے اسٹیبلشڈ شعبے ہیں۔ ان میں لیبارٹری میں تجربے نہیں کئے جاتے۔ عقاب کی نفسیات یا ایپیڈیمولوجی (بیماریوں کے پھیلنے اور کنٹرول کی سائنس) تجربات پر نہیں کی جاتی۔ ان میں فزکس اور کیمسٹری کی میتھاڈولوجی استعمال نہیں ہو سکتی۔ سائنس جاننے کا نام ہے۔ جس شعبے میں جو طریقہ کارآمد ہو، وہی استعمال کیا جاتا ہے۔

ہسٹوریکل سائنسز (آسٹرونومی وغیرہ) میں نان ہسٹوریکل سائنسز (فزکس، کیمسٹری، مالیکیولر بائیولوجی) سے کئی چیزیں مختلف ہیں۔

فزکس میں لیباریٹری کا تجربہ علم حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔ اس میں کسی پیرامیٹر کو بدلا جاتا ہے۔ ساتھ پیرالل میں کنٹرولڈ تجربات کئے جاتے ہیں۔ ان سے ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے اور اس کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ یہی طریقہ کیمسٹری اور مالیکیولر بائیولوجی میں بھی چل جاتا ہے۔ سائنس کا ابتدائی علم رکھنے والے بس اسی چیز کو ہی سائنس سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن بہت سی سائنسز میں یہ طریقہ استعمال ہو ہی نہیں سکتا۔ کہکشائیں کیسے بنیں، طوفان کیسے شروع ہوتے ہیں اور کیسے ختم ہو جاتے ہیں۔ ریچھ کیوں ختم ہو رہے ہیں۔ ڈائنوسارز کی کیا خاصیتیں تھیں۔ یہ جاننے کے اپنے طریقے ہیں۔ اس کے لئے مشاہدات، موازنے اور نیچرل ایکسپیریمنٹ وغیرہ استعمال کئے جاتے ہیں۔

فزکس اور کیمسٹری جیسے سادہ سائنسی مضامین میں قریبی اور حتمی وجوہات، مقصد اور فنکشن جیسے الفاظ بے معنی ہیں جبکہ جاندار چیزوں میں عمومی طور پر اور انسانوں میں خاص طور پر یہ انتہائی ضروری ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بائیولوجسٹ جو آرکٹک خرگوشوں کی جلد کے رنگ کی سٹڈی کر رہا ہے کہ وہ گرمیوں میں کیوں بھورا ہو جاتا ہے اور سردیوں میں کیوں سفید۔ اس کا جواب جاننے کے لئے فر کی پگمنٹ کے مالیکیولر سٹرکچر اور بائیوسنتھیٹک پاتھوے کی معلومات اسے کچھ زیادہ نہیں بتائے گی۔ اس سے زیادہ اہم سوال فنکشن، مقصد اور حتمی وجہ کے ہیں (جہں پر شکاریوں سے بچنا، فطری چناوٗ جیسے جوابات ملیں گے)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بالکل اسی طرح جب سائنسی طریقے سے کام کرنے والا مورخ جب تاریخ لکھتا ہے تو محض واقعات کا ڈھیر اکٹھا نہیں کرتا۔ یورپ میں 1815 اور 1918 میں بڑی جنگوں کے بعد امن معاہدے ہوئے۔ جب تک ان تک آنے والے واقعات کی لڑی کو نہ سمجھا جائے تو یہ سمجھ بھی نہیں آئے گی کہ دوسرے معاہدے کے کچھ عرصے بعد ہی ایک اور عظیم جنگ کیوں چھڑ گئی۔ جبکہ ایک  کیمسٹ اس طرح کام نہیں کرتا۔ اس کو دو گیس مالیکیولز کے تصادم کے مقصد یا فنکشن سے غرض نہیں۔

دوسرا فرق پیشگوئی کا ہے۔ کیمسٹری یا فزکس میں سسٹم کے مستقبل کے کسی نتیجے کی پیشگوئی کی جاتی ہے۔ یہاں پر بھی سائنس کو محدود علم رکھنے والوں کو تاریخی سائنس کا طریقہ سمجھ نہیں آتا۔ مثال کے طور پر یہ ماڈل نہیں بنائے جاتے کہ کونسی نوع کب معدوم ہو گی اور کیسے۔ تاریخی سائنسز میں ہم یہ پیشگوئی ضرور کرتے ہیں کہ ہمارے ماڈل کے مطابق جب ہم مستقبل میں، ماضی کے بارے میں نئی معلومات دریافت کریں گے تو وہ کیسی ہوں گی۔

ایک اور بڑا فرق پیچیدگی کا ہے۔ ڈائنوسار ہو یا انسانی معاشرہ۔ یہ انتہائی پیچیدہ ہیں۔ اس میں لاتعداد ویری ایبل ہیں جو ایک دوسرے سے مل کر ان کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ نچلے لیول پر ایک انتہائی معمولی سی تبدیلی ایمرج ہو کر اوپر کی سطح پر پورے سسٹم کو ہی بدل سکتی ہے۔ بائیولوجیکل سسٹم بھی فزکس کے قوانین کے تابع ہیں اور کوانٹم مکینکس کے، لیکن سسٹم کی پیچیدگی کا مطلب یہ ہے کہ تمام عملی مقاصد کے لئے ان کو سٹڈی کرنے کا یہ طریقہ نہیں۔ کوانٹم مکینکس کو جتنا بھی پڑھ لیں، یہ نہیں پتا لگے گا کہ کسی ایکوسسٹم میں ایک نئی نوع کی آمد کیا اثر کرے گی یا پھر پہلی جنگِ عظیم میں اتحادی افواج کو کیوں کامیابی ہوئی۔

ہر گلیشئیر، نیوبولا، طوفان، انسانی سوسایٹی، بائیولوجیکل نوع ۔ یہاں تک کہ ہر فرد اور ایک ایک خلیہ منفرد ہیں کیونکہ اس میں اس قدر زیادہ ویری ایبل ہیں۔ اس کے مقابلے میں فزکس کے سادہ دنیا میں فزسٹ کے پاس کھیلنے کو چند ہی بنیادی پارٹیکل ہیں۔ کیمسٹ کے پاس چند عناصر اور ان کے آئسوٹوپ۔ ان میں ہر چیز آئیڈینٹیکل ہے۔ کاربن بس کاربن ہی ہے اور الیکٹران بس الیکٹران۔ ان سائنسز میں یونیورسل قوانین بنائے جا سکتے ہیں جو میکروسکوپ (بڑے) لیول پر کام کرتے ہوں۔ اس کے برعکس بائیولوجسٹ یا ہسٹورین شماریاتی ٹرینڈ بتا سکتے ہیں۔ یہ بتایا جا سکتا ہے کہ اس ہسپتال میں ہونے والے ایک ہزار بچوں میں سے لڑکوں کی تعداد 480 سے 520 کے درمیان ہو گی لیکن میرے پاس پہلے سے یہ بتانے کا کوئی بھی طریقہ نہیں کہ میرے ہونے والے دونوں بچوں کی جنس کیا ہو گی۔

اسی طرح ایک مورخ بھی یہ بتا سکتا ہے کہ کس قسم کی سوسائٹی، کس قسم کی خاصیت رکھنے والوں کا مستقبل کس طرف جا سکتا ہے۔ لیکن پھر ہر مقامی آبادی کی اپنے منفرد فیچر اور افراد ہوتے ہیں۔

اس پیچیدگی اور غیریقینیت کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ وجوہات کی لمبی لڑی میں ہونے والے آخری اثرات کا تعلق سائنس کے صرف ایک شعبے سے نہیں ہوتا۔ اگر 67 ملین سال قبل کوئی بائیولوجسٹ مکمل اور تفصیلی سٹڈی کے بعد انواع کے مستقبل کے بارے میں پیشگوئی کر بھی دیتا تو وہ اس سے لاعلم ہوتا کہ ایک ملین سال بعد ایک شہابیہ گر کر تمام بڑے جانداروں کا خاتمہ کر دے گا اور اس کے ماڈل کے دھجیاں بکھیر دے گا۔ اس شہابیے کے تصادم کا ماڈل بھی بنایا جا سکتا تھا لیکن وہ سائنس کا الگ ہی شعبہ تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک ایپیڈومولوجسٹ کو یہ پتا لگانا ہے کہ نمک زیادہ کھانے کی وجہ سے کسی بیماری پر کیا اثر ہوتا ہے، وہ لوگوں کو زیادہ نمک کھلانے پر مجبور نہیں کر سکتا، اس کیلئے نیچرل ایکسپریمنٹ ڈھونڈنے جاتے ہیں۔ لوگوں کے وہ گروہ جو اپنی خوراک میں نمک کا زیادہ استعمال کرتے ہوں، ان کا موازنہ ان لوگوں سے جو یہ استعمال کم کرتے ہوں۔ معاشروں کی سٹڈی میں مشرقی اور مغربی جرمنی یا شمالی اور جنوبی کوریا کی سٹڈی اسی طرح کے نیچرل ایکسپیریمنٹ ہیں۔

نیچرل ایکسپیریمنٹ سے اخذ کردہ نتائج پر بحث اور تنقید بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح مختلف تکنیکس کے استعمال سے ہم بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ مستقبل کے بارے میں شماریاتی ٹرینڈ بھی بہت کچھ بتا سکتے ہیں۔ جب اخذ کردہ نتائج کا طریقہ کار اور ان میں  جانے والی ازمشن سب کے سامنے ہو تو اس سب ڈسکشن سے اس کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

انسانی معاشروں کی اسی طرح سٹڈی کر کے طویل مدتی ٹرینڈ تیار کئے جا سکتے ہیں،۔ یہ بتایا جا سکتا ہے کہ طویل مدت میں سمت کیا ہو سکتی ہے۔ یہ نہیں بتا جا سکے گا کہ اگلا الیکشن کون جیتے گا لیکن شاید یہ بتایا جا سکے کہ اس سمت میں اس بات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تیزی سے ہونے والی اور نظرانداز کی گئی ماحولیاتی ڈی گریڈیشن خانہ جنگی تک لے کر جا سکتی ہے۔

ہر سائنس فزکس یا کیمسٹری کی طرح سادہ نہیں لیکن کہکشاں، نیبولا یا ڈائنوسار، جس طرح ان کا اور ان کے وقت میں سفر کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انسان کا بھی ۔ انسانی معاشروں کو پڑھنے میں درون بینی محض ایک اضافی ٹُول ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کا مرکزی خیال جیرڈ ڈائمنڈ کی کتاب سے ہے۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں