باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 19 اکتوبر، 2019

شہر میں ایٹم بم



 ہتھیاروں کی دنیا کا بادشاہ ایٹم بم سمجھا جاتا ہے۔ اگر اس کو چلایا جائے تو ہو گا کیا؟ ہو سکتا ہے کہ آپ نے کسی ویڈیو گیم میں اس کو چلایا ہو لیکن آج اس کیلئے ایک شہر کا انتخاب کرتے ہیں اور آج کے ایٹم بموں کے ذخیرہ میں سے اس پر پھینک کر دیکھتے ہیں کہ ہو گا کیا؟

شہر میں لوگ کام کاج کے لئے جا رہے ہیں، امتحان کی تیاری کر رہے ہیں، سوچ میں گم ہیں، روز کی زندگی چل رہی ہے۔ ہم نے اس شہر کے مرکز میں اپنا بم پھینک دیا۔

پہلا فیز پہلے سیکنڈ کے اندر اندر مکمل ہو جائے گا۔ پہلے ملی سیکنڈ میں پلازمہ کی گیند نمودار ہو گی۔ اس کا درجہ حرارت سورج سے زیادہ ہے۔ یہ آگ جیسا گولہ دو کلومیٹر تک پھیل جائے گا۔ اس گیند کے اندر سب کچھ غائب ہو جائے گا۔ جیسے گرم کڑاہی پر پانی ڈالا جائے، ایک سرسراہٹ سی اور پھر کچھ باقی نہیں رہتا، ویسے ہی زیادہ تر عمارتیں، درخت، گاڑیاں، یادگاریں اور انسان بخارات میں تبدیل ہو جائیں گے۔ پہلے ایک تیز چمک اور روشنی کا سونامی پورے شہر میں بکھر جائے گا۔ اس دھماکے کے وقت جس کے سر کا رخ اس سمت میں ہوا، وہ کچھ گھنٹے کے لئے بینائی سے محروم ہو جائے گا۔ اس روشنی کی حرارت سے ایک تھرمل نبض پیدا ہو گی۔ اتنی توانائی والی اور اتنی گرم کہ تیرہ کلومیٹر تک ہر جگہ آگ لگا دے گی۔ اس پانچ سو مربع کلومیٹر کے رقبے میں جس چیز کو آگ لگ سکتی ہے، وہ جلنے لگی گی۔ پلاسٹک، لکڑی، کپڑا، بال، کھال۔ جو اس تھرمل نبض کی حد میں آئے گا، وہ ایک لمحے کام کی طرف جا رہا ہو گا، اگلے لمحے آگ کی لیپٹ میں ہو گا۔

اب دوسرا فیز شروع ہوتا ہے۔ یہ چند سیکنڈ تک رہے گا۔ کئی لوگوں کو پہلی بار لگے گا کہ کچھ گڑبڑ ہے لیکن لاکھوں لوگوں کے لئے دیر ہو چکی ہو گی۔ اس فلیش کے بعد آنے والی چیز شاک ویو ہے۔ آگ کے گولے کی حرارت اور ریڈی ایشن سپرہیٹ اور سپر کپریس ہوا کا بلبلہ بن گیا ہے۔ یہ تیزی سے پھیلنا شروع ہو گیا ہے۔ اس کی رفتار آواز کی رفتار سے زیادہ ہے۔ اس سے چلنے والی ہوا بڑے طوفان سے زیادہ تیز رفتار ہے۔ ہمارا بنایا ہوا انفراسٹرکچر اس کے آگے کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ آگے کے پھیلتے اس گولے کے ایک کلومیٹر کے ریڈیس کے دائرے کے اندر عمارتیں منہدم ہو گئی ہیں۔ صرف سٹیل کے ساتھ مضبوط کی گئی کنکریٹ کچھ تھوڑا مقابلہ کرنے کی تھوڑی سی صلاحیت رکھتی ہے۔

قریب پارک میں درخت سیاہ ہو گئے اور سلگنے لگے اور ایک ہی سیکنڈ میں یوں ٹوٹ گئے جیسا کہ ماچس کی تیلیاں تھیں۔ جو اس پارک میں لوگ تھے، وہ یوں اچھال دئے گئے جیسا طوفان میں ایک مٹی کا ذرہ۔

شاک ویو باہر سفر کرتے ساتھ کمزور پڑتی جا رہی ہیں۔ لیکن پونے دو سو مربع کلومیٹر میں گھر یوں گر گئے، جیسا کہ تاش کے پتے۔ ان میں دسیوں ہزار لوگ پھنس کر رہ گئے۔ پٹرول پمپوں نے دھماکے کے ساتھ آگے پکڑ لی جو اس ملبے میں پھیلنے لگی. اس آگ کے گولے، مٹی اور راکھ سے بنا کھمبی کی شکل کا بادل بلند ہونے لگا۔ اگلے چند منٹ میں یہ کئی کلومیٹر اوپر تک پہنچ جائے گا اور اس بدقسمت شہر کے اوپر تاریک سایہ کر دے گا۔ اس سے خالی ہونے والی جگہ کو پُر کرنے تیز ہوا شہر کا رخ کرے گی۔ اس سے مزید عمارتیں تباہ ہوں گی۔ آکسیجن اس بادل کو ملنے لگے گی۔

اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اس کا انحصار اس شہر پر ہے۔ اگر اس شہر میں ایندھن زیادہ موجود ہے تو یہ آگ کا طوفان بن جائے گا جو سب کچھ جلا کر راکھ کر دے گا۔ ان کو بھی جو اندر پھنسے رہ گئے اور وہ جو بھاگ رہے ہیں۔

اکیس کلومیٹر دور لوگ کھڑکیوں سے اس کو دیکھ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس مشروم کلاوٗڈ کی تصویر بھی کھینچ رہے ہوں۔ اس سے بے خبر کہ شاک ویو ان کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ان کے شیشے توڑ دے گی اور زخمی کر دینے والی کرچیوں کا طوفان برپا کر دے گی۔ 

اس کا تیسرا فیز اگلے گھنٹوں اور دنوں کا ہے۔ ہمارا خیال ہوتا ہے کہ اگر کوئی مصیبت ہو گی تو کہیں سے کوئی مدد آئے گی۔ یہاں پر بات فرق ہے۔ نیوکلئیر دھماکہ تمام قدرتی آفات کو ملا کر ہے۔ لاکھوں لوگ بری طرح زخمی ہیں۔ زخم، ٹوٹی ہڈیاں، جھلسی ہوئی جلد۔ اگلے چند منٹ اور گھنٹوں میں ان میں سے ہزاروں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں گے۔ بے شمار لوگ عمارتوں میں پھنسے ہوئے ہیں یا اس کی چمک میں بینائی کے قابل نہیں رہے یا بلاسٹ ویو کی وجہ سے سماعت سے محروم ہو گیے ہیں یا سڑکوں پر ملبے کی وجہ سے کہیں نہیں جا سکتے۔ خوفزدہ ہیں، کنفیوز ہیں اور ان کو نہیں پتا کہ کیا ہوا اور کیوں۔ ہسپتالوں کا بھی ملیامیٹ ہو چکا ہے۔ میڈیکل سٹاف بھی دوسروں کی طرح یا تو زخمی ہے یا مر چکا ہے۔

وہ جو زیرِ زمین تھے یا کسی ٹھیک جگہ پر کھڑے تھے، وہ خوش قسمت رہے اور زندہ بچ گئے۔ وہ بھی اتنے خوش قسمت نہیں۔ ابھی ان کی جدوجہد باقی ہے۔ بم کس طرح کا تھا، کہاں پھٹا، موسم کیسا تھا؟ سیاہ بارش شروع ہو سکتی ہے۔ اس میں تابکار راکھ ہو گی جو شہر کی ہر چیز کو ڈھک دے گی۔ ریڈی ایشن کا نہ نظر آنے والا اور خوفناک کام اپنی باری لے گا۔ ہر سانس زہر پھیپھڑوں میں لے کر جا رہا ہے۔  جن لوگوں کو ریڈی ایشن کی زیادہ ڈوز مل گئی، وہ اگلے چند روز میں فوت ہو جائیں گے۔ اگلے کئی روز تک ان کی مدد کرنے کے لئے آنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ جب انفرا سٹرکچر ہو جاتا ہے تو تہذیب کے آپریٹ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں رہتا۔ سڑکیں بلاک ہو گئیں ہیں، ٹرین کی پٹڑیاں پگھل چکی ہیں۔ ہوائی اڈے کی رن وے ملبے سے اٹی ہوئی ہے۔ پانی نہیں ہے، بجلی نہیں ہے، رابطے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، دکانوں میں سامان پہنچنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ قریب کے شہروں سے مدد پہنچنے کا طریقہ نہیں ہے اور اگر پہنچ بھی جائے تو قریب آنا خطرے سے خالی نہیں۔ اس بم سے بچ جانے والوں کو جو کرنا ہے، خود ہی کرنا ہے۔


ایک ایک کر کے ملبے سے لوگ خود ہی پیدل نکلیں گے۔ تابکار فال آوٗٹ سے آلودہ، جو بھی ہاتھ آیا، اس کو اٹھا کر۔ آہستہ آہستہ، تکلیف میں، ٹراما کا شکار۔ ان کو خوراک، پانی اور میڈیکل ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ اور جلد ضرورت ہے۔

اس سے ہونے والا نقصان آگ بجھ جانے کے بعد یا دھواں صاف ہو جانے کے بعد ختم نہیں ہوتا۔ قریب شہروں کے ہسپتال اس سے نپٹنے کے لئے تیار نہیں۔ دسیوں ہزار مریضوں کے لئے ان کے پاس جگہ تک نہیں۔ آئندہ آنے والے ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں ۔۔ ان بچنے والوں میں سے کئی مختلف اقسام کے کینسر کا شکار ہو جائیں گے۔

اس کے بارے میں کسی حکومت کی طرف سے بات اس لئے نہیں کی جاتی کیونکہ اس سانحے سے پیدا ہونے والے بحران کے لئے کوئی حکمتِ علمی بنانا ممکن نہیں ہے۔ یہ کوئی طوفان ،آتشزدگی، زلزلہ یا نیوکلئیر ایکسیڈنٹ نہیں۔ یہ سب چیزیں اس میں اکٹھی ہیں اور زیادہ شدت سے ہیں۔ دنیا میں کوئی ملک اس کے لئے تیاری نہیں کر سکتا۔

آج سے پینتیس سال قبل، سرد جنگ کے وقتوں میں دنیا میں ستر ہزار نیوکلئیر ہتھیار ہوا کرتے تھے۔ اس وقت کم ہو کر ان کی تعداد چودہ ہزار رہ گئی ہے۔ ان میں سے ایک اوسط درجے کا بم یہ کام کر سکتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں