باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 26 مئی، 2020

پی کے 8303 کا افسوسناک حادثہ

پی آئی کے کی ائیربس 320 کے حادثے کی افسوسناک خبر نے 22 مئی 2020 کو پورے ملک کو رنجیدہ کر دیا۔ اس جہاز پر سوار 98 نفوس تھے۔ اپنی لینڈنگ سے کچھ ہی دیر پہلے جہاز کریش ہو گیا اور تقریباً تمام مسافر خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اس حادثے میں ہونے والی جانی نقصان اور ان کے سوگواران پر جو بیتی، اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ ان سب کی مغفرت کرے۔ آمین۔

اب اگلا مرحلہ سیفٹی انوسٹی گیشن بورڈ کی طرف سے انکوائری ہے۔ اگر رپورٹ پبلک کی گئی تو ٹھیک تفصیلات کا علم اس کے بعد ہی ہو گا لیکن اس افسوناک حادثے سے متعلق چند حقائق۔

جہاز کی بلندی اور رفتار
جتنا ڈیٹا اب تک ملا ہے، اس سے یہ واضح ہے کہ جہاز منظور شدہ پروسیجر سے زیادہ رفتار اور بلندی سے اپروچ کر رہا تھا۔ ائیرسپیڈ کا سرکاری طور پر ریلیز کیا جانے والا ڈیٹا بتاتا ہے کہ جہاز کو بہت تیزی سے دس ہزار فٹ کی بلندی سے نیچے لایا گیا تھا۔

ایک اور چیز جس کا تعین کیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ جہاز نے جب رن وے کو ٹچ کیا تھا تو لینڈنگ گئیر کھلا ہوا نہیں تھا۔ اور اس کے بعد جہاز نے واپس اڑان بھری اور تین ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچا۔ بدقسمتی سے یہ ٹچ ڈاوٗن جہاز کے انجن پر ہوا۔ رن وے کی انسپیکشن رپورٹ کہتی ہے کہ:
“جہاز کا پیٹ نیچے نہیں لگا۔ صرف انجن لگے، ایک کے بعد دوسرا۔ گو اراوٗنڈ اس کے بعد کیا گیا۔ نشان یہ بتاتے ہیں کہ رن وے پر پہلا ٹچ ساڑھے چار ہزار فٹ کے فاصلے پر ہے۔ ساڑھے پانچ ہزار فٹ کے فاصلے پر دونوں انجن نیچے لگے ہیں اور پھر زیادہ گاڑھی لکیر اس وقت بنی ہے جو چھ سے سات ہزار فٹ کے درمیان ہے۔ پھر آخری ڈیڑھ ہزار فٹ پر صرف دایاں انجن لگا ہے اور پھر جہاز واپس بلند ہو گیا”۔

یہ رپورٹ اس چیز کی تصدیق کرتی ہے کہ جہاز نے رن وے کو لینڈنگ گئیر کے بغیر چھوا۔ جہاز کو نارمل حالات میں ڈیڑھ ہزار فٹ پر رن وے کو چھونا چاہیے تھا۔ جہاز کا انجن گراوٗنڈ سے ایک میٹر بلند ہوتا ہے اور لینڈنگ گئیر کے ساتھ یہ ممکن نہیں تھا کہ انجن رن وے کو چھو سکے۔ اس سے ہم یہ تعین کر سکتے ہیں کہ جہاز جب لینڈ کیا تو یہ ٹھیک لینڈنگ نہیں تھی۔ دو الگ مسائل تھے۔ جہاز تیز اور بلند تھا اور لینڈنگ گئیر کھلا نہیں تھا۔ تاہم کیا اس کا نہ کھلنا مکینیکل نقص تھا یا پھر بھول؟ اس کا تعین اس وقت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ انکوائری میں معلوم ہو سکے گا۔ جہاز نیچے آنے کے بعد دوبارہ بلند ہو گیا۔

کنٹرولر کے ساتھ کی گئی کال میں لینڈنگ گئیر کی خرابی کا ذکر نہیں آیا۔ جہاز کی گو اراوٗنڈ کے بعد لی جانے والی تصویر دونوں انجنوں پر سیاہ جلنے کے نشان دکھاتی ہے۔ یہ فرکشن سے پہنچنے والا نقصان ہے۔ جو رن وے پر گھسٹنے کے بعد آگ اور شعلوں سے ہوا ہے۔ بدقسمت جہاز کے انجن بری طرح متاثر ہوئے تھے اور اس سے ہونے والے نقصان نے اس جہاز کی قسمت طے کر دی۔

گو اراوٗنڈ کے بعد
جہاز تین ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچا اور پھر واپس لینڈ ہونے کی کوشش کی۔ پلان یہ تھا کہ واپس اسے اپروچ والے مقام تک لے جایا جائے۔ اس وقت پائلٹ کو معلوم ہوا کہ وہ تین ہزار فٹ کی بلندی برقرار نہیں رکھ پا رہے اور نیچے آ رہے ہیں۔ کنٹرولر بھی پائلٹ کو بتاتے ہیں کہ ان کی بلندی کم ہو رہی ہے جس پر کیپٹن جواب دیتے ہیں کہ وہ دو ہزار فٹ کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس موقع پر ان کو احساس ہو چکا ہے کہ وہ اس مقام تک نہیں پہنچ سکیں گے جہاں سے لینڈنگ پلان کی تھی۔ وہ موڑ کاٹتے ہیں اور ائرپورٹ کی طرف جہاز کا رخ کر دیتے ہیں۔ اس مرحلے پر ان کے لینڈنگ گئیر نیچے کئے جا چکے ہیں۔ یہ ہمیں اس جہاز کی تصویر میں نظر آتا ہے۔ لیکن انجن کوئی تھرسٹ نہں دے رہے۔ جہاز بلندی کھوتا جا رہا ہے اور رن وے تک پہنچنے سے پہلے آبادی میں کریش ہو جاتا ہے۔

یہاں پر کسی اونچی عمارت یا ہائی ٹینشن تاروں یا اس قسم کی کی قیاس آرائیاں بے کار ہے کیونکہ یہ واضح ہے کہ جہاز کے انجن کام کرنا چھوڑ چکے تھے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آگے عمارت ہے، چٹیل میدان یا پہاڑ۔ جہاز جب اپنی بلندی برقرار نہیں رکھ پایا تو سٹال ہو گیا اور نیچے گر گیا۔

 جہاز پرانا نہیں تھا۔ اس کی عمر صرف گیارہ سال تھی۔ ائربس 320 سیفٹی کا بہترین ریکارڈ رکھتی ہے۔ جہاز کے پائلٹ تجربہ کار تھے۔ مسئلہ دوسری لینڈنگ کی کوشش کا نہیں تھا۔ جہاز کی قسمت پہلی لینڈنگ کی کوشش نے طے کر دی تھی۔

اس میں جہاز زیادہ بلندی سے اور تیز رفتار سے آیا اور لینڈنگ گیئیر نہیں کھلا ہوا تھا لیکن آخر ایسا ہوا کیوں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب انویسٹی گیشن میں طے کیا جائے گا۔ اور اس پر وقت لگے گا۔

اس وقت ہمیں جتنا علم ہے، اس کے حساب سے چند چیزیں کہی جا سکتی ہیں۔
کیا ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے؟ بدقستمی سے اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں۔ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔
کیا قصور صرف پائلٹ کا تھا؟ نہیں، صرف ایک شخص کو موردِ الزام ٹھہرانا سسٹم کی کمزوریوں پر پردہ پوشی کے مترادف ہے۔
کیا یہ بس قسمت میں لکھا ایک حادثہ تھا جو ہو گیا؟ نہیں۔ یہ جواب بالکل بھی وضاحت نہیں کرتا۔ جہاز ایسے ہی نہیں گر جایا کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
حادثات میں قسمت کا بڑا کردار ہے لیکن کیا صرف قسمت کا؟
مشہور ماہرِ شماریات نیٹ سلور نے 2015 میں دنیا بھر کی بڑی ائیرلائنز کا تیس سال کا ڈیٹا اکٹھا کیا کہ سیفٹی کے حساب سے کونسی ائیرلائن بہترین ہے۔ اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک 1985 سے 2000 کا ڈیٹا جبکہ دوسرا 2000 سے 2015 کا ڈیٹا۔ اس میں ان واقعات کو لیا گیا جہاں حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ یہ اس وجہ سے کہ حادثات تو کم ہوتے ہیں لیکن near miss زیادہ۔ اور ایسے واقعات اس چیز کا بتاتے ہیں کہ کہیں سسٹم میں یا پراسس میں کچھ کمزوری رہ گئی تھی۔ اور معاملہ قسمت تک آ گیا تھا۔ جہاز کا رن وے سے اتر جانا یا اس قسم کے دوسرے واقعات ایسی کمزوریوں سے آگاہ کرنے کے لئے وارننگ ہوتے ہیں۔

اس ڈیٹا میں پہلے پندرہ برس میں خطرناک ترین ائرلائن سوویت یونین کی ایروفلوٹ تھی، دوسرے نمبر پر ایتھوپیا ائرلائن اور تیسرے نمبر پر پی آئی اے۔ اس سے اگلے پندرہ سال میں ایروفلوٹ اور ایتھوپیا ائرلائن بہت بہتر ہو چکے تھے جبکہ پی آئی اے میں واقعات کا تناسب ویسا ہی رہا تھا۔ اس ڈیٹا کے مطابق 1985 سے 2015 تک کے تیس برسوں میں مجموعی طور پر بڑی ائرلائنز میں پی آئی اے کا ریکارڈ اچھا نہیں تھا اور زیادہ  تشویش ناک بات یہ تھی کہ کارکردگی بہتر نہیں ہوئی تھی۔ ڈیٹا پکار کر کہہ رہا تھا کہ مسئلہ صرف قسمت کا نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی طرز کے حالیہ واقعات دیکھے جائیں تو کراچی سے پنجگور جانے والی 10 نومبر 2018 کی فلائٹ بالکل ایسی صورتحال کا شکار ہوئی۔ تیزرفتار لینڈنگ اور بلند اپروچ کی وجہ سے جہاز رن وے سے پھسل گیا اور رن وے کے اوور رن میں جا کر رکا۔ پہلے قصوروار مینٹیننس کو ٹھہرایا گیا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ پائلٹ ایرر تھا۔ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور جہاز بھی کچھ مرمت کے بعد دوبارہ فلائنگ کرنے کے قابل ہو گیا۔ ایک اور بدقسمت حادثہ 20 جولائی 2019 کو ہوا جب فلائٹ پی کے 605 گلگت میں رن وے سے اتر گئی اور ائرپورٹ کی باونڈری وال کے قریب جا کر رکی۔ نتیجے میں جانی نقصان نہیں ہوا لیکن اس کریش سے جہاز مکمل طور پر ضائع ہو گیا اور پی آئی اے کو جہاز کا نقصان اٹھانا پڑا۔ انوسٹی گیشن سے قصور پائلٹ کا نکلا۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس پائلٹ نے پہلے بھی کئی بار تیزرفتار اور بلند اپروچ کی ہیں۔

اسی طرز کا ایک واقعہ کھٹمنڈو میں 28 ستمبر 1992 کو ہوا جس میں پی آئی اے کا جہاز ائربس 300 کریش ہو گیا۔ 167 لوگ جان بحق ہو گئے۔ یہ نیپال میں ہونے والا سب سے مہلک ترین حادثہ ہے۔ وجہ پائلٹ ایرر تھا جس میں اپروچ پلیٹ کو پڑھنے میں غلطی کی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا پاکستانی پائلٹ نکمے ہیں؟ بالکل نہیں۔ کیا بھرتیاں سفارش سے ہوتی ہیں؟ بالکل نہیں۔ مسئلہ نہ ہی صلاحیت کا ہے اور نہ ہی میرٹ کا۔

کمرشل جہاز کا پائلٹ آسان کام نہیں۔ خاص طور پر ٹیک آف اور لینڈنگ بہت سٹریس والے مراحل ہیں۔ مضبوط اعصاب اور اچھی قوتِ فیصلہ مانگتے ہیں۔  جہاز اڑانے کا اصل امتحان اس وقت ہے جب آپ مشکل حالات میں ہوں۔ پائلٹ ٹریننگ کا بڑا حصہ سیفٹی کے بارے میں ہی ہوتا ہے۔ اور ایک بار پائلٹ بن جانا کافی نہیں۔ یہ ایک مسلسل کئے جانے والا کام ہے۔ ٹریننگ میں پائلٹ ایسی صورتحال سے اور سٹریس سے گزرتے ہیں تا کہ اس کی عادت ہو جائے۔ کوئی صورتحال سرپرائز نہ ہو۔ اور یہ اس وقت موثر طریقے سے کیا جا سکتا ہے جب پرفارم کرنے کا پریشر ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم خیالوں کی یا ہم پیشہ افراد کی تنظیم سازی ایک عام بات ہے۔ پروفیشنلز میں ایسی تنظیمیں بہت مفید ثابت ہوتی ہیں جس کے ممبران ایک دوسرے سے اپنا علم شئیر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پراجیکٹ مینجیرز کے لئے پی ایم آئی ہے۔ الیکٹریکل انجینر کے لئے آئی ٹرپل ای یا اس قسم کی بہت سے پیشہ وارانہ تنظیمیں ایسا کام کرتی ہیں۔

ان تنظیموں کی ایک اور شکل “حقوق” والی تنظیمیں ہیں اور جب یہ طاقتور ہو جائیں تو بدصورت ہو جاتی ہیں۔ ڈاکٹروں کی ایسی تنظیمیں میڈیکل کے معیار کا تیاپانچہ کر رہی ہیں۔ وکیلوں کی ایسی تنظیمیں قانون کی دھجیاں اڑا رہی ہیں۔ طلباء تنظیمیں تعلیم کا ستیاناس کرتی رہی ہیں۔
پائلٹوں کی ایسی تنظیم “پالپا” ہے۔ آپ اگر ان تنظیموں کے ممبر ہیں تو ہی ان کی افادیت کا دفاع کر سکیں گے اور ایسا بڑے پرجوش انداز میں کریں گے۔  (اس کا یہ مطلب نہیں کہ انجینرنگ، سول ایوی ایشن وغیرہ کے اپنے اپنے مسائل نہیں)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا پائلٹ اپنی تربیت پر توجہ دے رہا ہے؟ کیا جوابدہی کا اچھا نظام موجود ہے؟ کیا تربیت کے خود اپنے معیار کا آزادانہ ریویو کا طریقہ پایا جاتا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ اس کی وجہ پالپا کی پاور ہے جس کی وجہ سے یہ کلوزڈ سسٹم ہے۔  ٹریننگ سسٹم کی سکروٹنی ضروری ہے۔ آڈٹ ضروری ہیں۔ دنیا سے مسلسل  آگاہ رہنا ضروری ہے۔

ایک اور بہت بڑا مسئلہ کاک پٹ کلچر کا ہے۔ ائربلیو کا اسلام آباد میں کریش اس کی مثال تھا اور غالباً حالیہ کریش میں بھی ایسا ہوا۔ آپریٹنگ پروسیجر کے مطابق فرسٹ آفیسر کیپٹن کو ہمیشہ چیلنج کر سکتا ہے (یہی اس کے ہونے کا فائدہ ہے)۔ “یس سر” والے کلچر میں ایسا آسانی سے نہیں ہوتا۔ جونئیر فرسٹ آفیسر کے لئے وہ جرات ہونا کہ وہ اپنے سے سینئر کپتان کے فیصلے کو چیلنج کر سکے، جہاز، ائیرلائن، مسافروں اور فضائی عملے کی حفاظت کے لئے اشد ضروری ہے۔ اور اس کے لئے مناسب کلچر ضروری ہے۔

یہ صرف پی آئی اے تک محدود نہیں۔ ائربلیو کا مارگلہ پہاڑیوں پر کریش پائلٹ ایرر تھا۔ بھوجہ کے جہاز کا اسلام آباد پر کریش ایسا ہی تھا۔

پی آئی اے کے بوئنگ 777 کے کچے میں اتر جانے کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ ایک واقعے میں یورپی فضائی سپیس میں بوئنگ 777 کے ایک پائلٹ سوئے ہوئے تھے اور جواب نہیں دے رہے تھے جس پر فائٹر جیٹ اڑائے گئے۔  یہ سب واقعات ایک پیٹرن کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پالپا کا ایک مقصد پائلٹ کی سروس کا تحفظ ہے اور وہ اپنے اس مقصد میں بہت کامیاب ہے۔ یہاں تک کہ ڈسپلن کی صاف خلاف ورزی پر بھی ایکشن لئے جانا آسان نہیں۔ جوابدہی کا تصور نہیں۔ پنجگور کے واقعے پر کارروائی نہیں ہوئی۔ جولائی 2019 میں جہاز ضائع کرنے پر پائلٹ کو سزا ایک سال تنزلی کی صورت میں ملی۔ جولائی 2020 میں  شاید ائربس کی کمانڈ ان کے پاس ہو گی۔

پائلٹ کی نوکری مستقل ہے اور سروس سے برخواست نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس پر سپریم کورٹ آف پاکستان فیصلہ دے چکی ہے۔ یہ سب صورتحال ایسا ماحول بناتی ہے جہاں ڈسپلن برقرار رکھنے اور پرفارمنس کا وہ پریشر نہیں رہتا جو ضروری ہے۔

ریگولیشن کے مطابق رمضان میں پرواز اڑانے والے پائلٹس کے لئے روزہ رکھنا منع ہے۔ اس کی میڈیکل وجہ ہے۔ گلوکوز کا لیول کم ہونے سے ہائپوگلاسیمیا ہو سکتا ہے۔ اس سے قوتِ فیصلہ متاثر ہوتی ہے اور دھندلا جاتی ہے۔ عام کام میں تو اتنا بڑا مسئلہ نہیں لیکن اس جگہ پر جہاں آپ کی قوتِ فیصلہ پر زندگیوں کا انحصار ہو؟ یہ انتہائی غیرذمہ دارانہ عمل ہے۔ ہر سال رمضان سے پہلے ایک خط ریگولیٹری ضرورت کو پورا کرنے کے لئے جاری کر دیا جاتا ہے۔ لیکن فضائی عملے میں اس ریگولیشن کی خلاف ورزی کرنا عام ہے۔ “اللہ مالک ہے” اور “سب چلتا ہے” کا کلچر ڈسپلن کی گرفت کمزور کر دیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسا نہیں کہ پچھلے برسوں میں بہتری کے لئے کوششیں نہیں کی جا رہیں۔ یونینز کی طاقت توڑنے سے پروفیشنل ازم لانے تک اقدامات کئے گئے ہیں۔ پاکستان ائرلائن میں افغانستان، نیپال یا انڈیونیشیا کی لائون ائیر جیسے برے حالات بھی نہیں لیکن بہتری کی بہت گنجائش ہے۔

میڈیا کے ذریعے کسی پر بھی الزام تراشی آسان ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے بڑے اداروں کا ٹرن آراوٗنڈ بہت ہی دشوار کام ہے۔ کیا ہمیں اس کی کامیاب مثالیں کہیں نظر آتی ہے؟ کئی جگہ پر۔ ایرو فلوٹ اور ایتھیوپیا ائرلائن کا ٹرن آراوٗنڈ اس کی بہت ہی کامیاب مثالیں ہیں لیکن کئی اور بھی ہیں۔

کورین ائرلائن سیفٹی کے حوالے سے 1990 کی دہائی میں بدنام تھی۔ اس قدر زیادہ بدنام کہ فرانس اور امریکہ کی ائیرلائنز نے اپنے مسافر اس پر بٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ دنیا کی اوسط سے کئی گنا زیادہ حادثات کا شکار تھی۔ “یس سر” کلچر اور پاور ڈسٹنس ایک بڑا مسئلہ تھا۔ اس نے اپنے مسائل کا سامنا کرنے اور برسوں سے جاری جامد کلچر کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور یہ کلچرل تبدیلی تھی جس کے بعد جہاں صرف 1999 کے ایک سال میں اس ائرلائن کے تین جان لیوا حادثات ہوئے تھے، وہاں پر پچھلے بیس سال میں صرف ایک بار حادثہ ہوا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ظاہر ہے کہ اس حادثے کی تفصیلات ابھی سامنے آنی ہیں۔ اس حادثے میں اصل مسئلہ کہاں، کیا اور کیوں ہوا؟ اس کا تعین باقی ہے؟  آئندہ کیا کیا جا سکتا ہے کہ ایسے حادثات سے بچاوٗ ہو سکے۔ یہ ابھی طے ہونا ہے۔ لیکن اس کے سب سے بے کار جواب کیا ہیں؟
ایک حادثہ تھا، بس ہو گیا۔
فلاں شخص یا اشخاص کا قصور تھا۔ باقی سب ٹھیک ہے۔
فلاں گروپ کا قصور ہے۔ باقی سب ٹھیک ہے۔

کلچرل مسائل ٹھیک کرنا مشکل ہے، ناممکن نہیں۔  کیا حالیہ افسوسناک سانحہ ان سٹرکچرل اور کلچرل مسائل میں بہتری کی طرف پیشرفت میں مدد کرے گا؟

یہاں پر یاد رہے کہ ان معاملات کی پیچیدگیوں سے مکمل طور پر واقف ہوئے بغیر دور سے بیٹھ کر تنقید کرنا بہت آسان ہے۔ کسی کو الزام دینا آسان ہے۔ فلائٹ پی کے 8303 کا کریش ہو جانا جرم نہیں تھا، ایک حادثہ تھا۔ البتہ، اس سے نہ سیکھنا جرم ہو گا۔ اور اس کا پتا آنے والے مہینوں میں لگے گا۔

اپنی اپنی privilege بچانے والے گروپ پہلے ہی حرکت میں ہیں۔ اور یہ خبر خود جلد ہی پس منظر میں چلی جائے گی اور لوگوں کے ذہن سے محو اور میڈیا سے غائب ہو جائے گی۔ کیونکہ ہر خبر کی ایک شیلف لائف ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: ساتھ لگی تصویر گلگت میں جولائی 2019 میں ہونے والے حادثے کی۔ یہ ایک اے ٹی آر 42 جہاز تھا۔ اچھی حالت میں جہاز، صاف موسم، روشن دن اور خشک رن وے پر ایسا حادثہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں بنتی تھی۔

  
  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیٹ سلور کی فلائٹ سیفٹی پر تحریر
https://fivethirtyeight.com/features/should-travelers-avoid-flying-airlines-that-have-had-crashes-in-the-past/

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں