پہلی لبنان جنگ 6 جون 1982 کو شروع ہوئی تھی۔ اگرچہ کابینہ سے منظوری صرف پچیس میل علاقے میں اڑتالیس گھٹنے کی کارروائی کا بتا کر لی گئی تھی لیکن شیرون اور ایتن کے احداف اس سے بہت وسیع تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردن نے فلسطینی عسکریت پسند گروہوں کو 1970 میں اپنی زمین پر شکست دے کر لبنان کی طرف دھکیلا تھا۔ انہیں لبنان میں مہاجر کیمپوں سے ریکروٹ آسانی سے مل گئے تھے۔ لبنانی خانہ جنگی 1975 میں شروع ہوئی تھی، جن میں یہ گروپ بھی فریق تھے۔ پندرہ سال تک رہنے والی اس خانہ جنگی کے نتیجے میں سوا لاکھ ہلاکتیں ہوئیں۔ اس میں اتحاد بنتے تھے، ٹوٹتے تھے۔ کئی بار یہ پہچاننا مشکل ہو جاتا تھا کہ کون کس سے لڑ رہا ہے۔
سیریا کے صدر حافظ الاسد سے مارچ 1976 میں فوج بھیجنے کی درخواست کی۔ یکم جون کو سیریا کی بارہ ہزار فوج لبنان میں بھیج دی گئی تھی۔ اس وقت تک لبنان میں دو صدر تھے۔ سلیمان فرنجیہ جو عہدہ چھوڑنے سے انکاری تھے اور الیاس سرکیس جو شہر سے دور ایک ہوٹل میں صدارتی حلف اٹھا چکے تھے۔ ملک میں انارکی جاری تھی۔
سیریا کی اس خانہ جنگی میں دلچسپی اپنے اندرونی معاملات کی وجہ سے تھی۔ سیرین حکومت مخالف عناصر لبنان سے کام کر رہے تھے۔ اسے مسئلہ بعث پارٹی مخالف گروہوں سے اور اخوان الاسلامی کے حامیوں تھا۔ سیریا نے مقامی میرونائٹ کرسچن ملیشیا سے ملکر آپریشن شروع کیا۔ تنظیمِ آزادی فلسطین اس کے مقابلے پر تھی۔ (فلانج ملیشیا کی 1976 میں تل الزعتر مہاجر کیمپ میں ہونے والے جھڑپ میں دو ہزار کے قریب فلسطینی ہلاک ہوئے۔ سیریا کی فوج فلانج کے ساتھ تھی)۔
اکتوبر 1976 میں عرب لیگ نے لبنان کے لئے عرب امن فوج کی منظوری دی اور اس کو تمام لبنانی عسکری گروہوں کو غیرمسلح کرنے کا مینڈیٹ دیا۔ جلد ہی باقی عرب ملک اس سے الگ ہو گئے اور عرب امن فوج (قوات الرداع العربیہ) کا مطلب سیریا کی فوج رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدا میں اسرائیل اور سیریا دونوں ہی لبنان فرنٹ کے حامی تھے لیکن اتحاد بدلتے رہے۔ جلد ہی اسرائیل اور سیریا الگ دھڑوں کی حمایت میں تھے۔ بعد کے برسوں میں سیریا نے اپنی ملیشیا “جیش التحریر الفلسطینی” بنائی اور شیعہ سیاسی پارٹی حرکت العمل کی ملیشیا کی حمایت کی۔ جبکہ دوسری طرف اسرائیل لبنان فرنٹ کا حامی تھا۔
پہلی لبنان جنگ جب 1982 میں شروع ہوئی، تو نصف سے زائد لبنان سیریا کے قبضے میں تھا۔ اسرائیلی اتحادی لبنان فرنٹ کے بشیر جمال نے اس وقت لبنانی پارلیمان میں صدارت کا انتخاب جیت لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگ کے وقت سیریا کی پینتیس ہزار فوج لبنان میں تھی۔ اسرائیل کے لئے لبنان پر حملے کا ایک حدف ان کو باہر نکالنا بھی تھا۔ پہلے معرکے میں جزین کا شہر سیریا کے قبضے سے نکل گیا۔ اس سے اگلے دنوں میں سیریا کو مزید نقصان اٹھانا پڑا۔ 26 جون کو سیریا نے الگ سے جنگ بندی کر لی اور اس جنگ سے باہر ہو گیا۔ اس کے بعد جنگ کا ٹارگٹ پی ایل او تھی۔ بیروت پر ہونے والی دس ہفتے کی بمباری سے انیس ہزار فلسطینی اور لبنانی مارے گئے۔ اسرائیل کے خلاف سخت مزاحمت صیدا کے قریب عین الحلوة کے مہاجر کیمپ سے آئی جہاں چالیس ہزار مہاجرین تھے۔ اس کیمپ کو مکمل تباہ کر دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرب حکومتوں کی طرف سے پی ایل او کو سپورٹ نہیں ملی۔ عرب عوام میں غصہ پایا جاتا تھا لیکن غیرجمہوری حکومتوں اور سخت گیر حکمرانوں کا ایک مطلب یہ تھا کہ عرب شہروں میں اس جنگ کے خلاف مظاہرے نہیں ہوئے۔ اور یہ عجیب ستم ظریفی تھی کہ لبنان میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہونے والا مشرقِ وسطٰی کا سب سے بڑا مظاہرہ تل ابیب میں ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ایل او لبنان میں غیرمقبول تھی۔ اس کے لبنانی آبادی سے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے ایک واقعے میں فلسطینی کرنل محمد ضعیم نے اپنے گھر کے باہر گاڑی روک کر لبنانی میاں بیوی کو گولی مار دی تھی۔ تنظیم نے ان سے کسی قسم کی جوابدہی نہیں کی تھی۔ یہ واقعہ مشہور ہوا تھا اور اس نے پی ایل او کے خلاف منفی جذبات پیدا کئے تھے۔ اور یہ اس نوعیت کا واحد واقعہ نہیں تھا۔ کئی لبنانی گروہوں سے وہ براہِ راست جنگ میں تھی، جبکہ اپنے حامیوں کو بھی اپنے طرزِ عمل سے دور کیا تھا۔ اسرائیل کے اس حملے کا ایک اثر یہ ہوا کہ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرف سے حمایت بھی ختم ہو گئی تھی۔ ان کی نظر میں یہ پرائی آگ تھی جو ان کے گھر پہنچ گئی تھی۔
بارہ اگست کو طویل مذاکرات کے بعد پی ایل او کا جانا لبنان سے جانا طے ہو گیا۔ پی ایل او نے ہتھیار ڈال دئے۔ سینئیر راہنماوٗں اور جنگجووٗں سمیت یاسر عرفات نے بیروت چھوڑ دینے کی حامی بھر لی۔
ہزاروں جنگجووٗں نے اکیس اگست اور یکم ستمبر کے درمیان لبنان چھوڑ دیا۔ بیروت میں جذباتی مناظر تھا۔ کہیں روتے، کہیں گاتے اور کہیں خوشی سے نعرے لگاتے ہجوم کے درمیان میں فلسطینیوں کے ٹرک بندرگاہ کی طرف نامعلوم منزل کو جا رہے تھے جس کا انہیں خود معلوم نہیں تھا۔ ان کو چھ الگ ممالک میں بکھیر دیا گیا۔
لبنان میں اگرچہ جنگ سے قبل ان کے لئے اچھے جذبات کی کمی رہی تھی لیکن اس جنگ کے بعد کئی لبنانیوں کی نظر میں یہ ہیرو بن گئے، جنہوں نے دس ہفتے، بغیر کسی بیرونی مدد کے، مشرقِ وسطیٰ کی سب سے طاقتور آرمی کا مقابلہ کیا تھا۔ (بعد کے برسوں میں فلسطینی راہنما ابوعیاد نے انٹرویو میں بتایا کہ اس جنگ میں ان ہفتوں کے دوران انہیں ملنے والی ایندھن، اسلحے اور خوراک کی سپلائی لبنان فرنٹ ملیشیا کے ایجنٹوں کی مدد سے جاری رہی جو اسرائیل کے اتحادی تھے۔ ابو عیاد کے مطابق “کاروبار سے کون انکار کرتا ہے”)۔
آخری جہاز کے جاتے ہی یکم ستمبر کو عارضی طور پر جنگ بندی کی نگرانی کرنے کے لئے چند روز کے لئے آنے والے فرانسیسی، اطالوی اور امریکی فوجی بھی لبنان چھوڑ گئے۔ سویلین آبادی اب غیرمحفوظ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لبنان کے اگلے ہونے والے صدر بشیر جمال تھے، جو لبنان فرنٹ کے کمانڈر اور کرسچن ملیشیا فلانج کے لیڈر تھے۔ نیشنل اسمبلی نے انہیں صدر منتخب کر لیا تھا۔ اسرائیل کو امید تھی کہ ان کے صدر بن جانے کے بعد لبنان سے مرضی کے معاہدے کئے جا سکیں گے۔ چودہ ستمبر 1982 کو فلانج ہیڈکوارٹر میں ہونے والے بڑے دھماکے میں چھبیس دوسرے سیاستدانوں سمیت بشیر جمال مارے گئے۔ اسرائیل نے جنگ بندی کا معاہدہ توڑ دیا اور فوری طور پر مغربی بیروت پر قبضہ کر لیا۔
بشیر جمال کو مارنے والے سیریا سوشلسٹ پارٹی کے حبیب الشرتونی تھے جو لبنان فرنٹ کے مخالف تھے۔ وہ دو روز بعد گرفتار ہو گئے۔ (جب سیریا نے بعد میں لبنان پر قبضہ کیا تو حبیب آزاد کروا لئے گئے۔ دھماکے سے 35 سال بعد 2017 میں ان پر لبنان میں مقدمہ چلا اور سزائے موت سنا دی گئی)۔
اگرچہ یہ دھماکہ فلسطینیوں نے نہیں کیا تھا لیکن اپنی قیادت کے قتل پر بپھرے ہوئے لبنان فرنٹ کا نشانہ فلسطینی بنے۔
لبنان فرنٹ نے گھر گھر جا کر لوگوں کو قتل کیا۔ تین روز تک یہ قتلِ عام چلتا رہا جبکہ قابض اسرائیلی فوج نے اس کو روکنے کے لئے ایکشن نہیں لیا۔ اس دوران 800 سے 2750 کے درمیان قتل ہوئے جس میں زیادہ تر بچے، خواتین اور بوڑھے تھے (جوان فلسطینیوں کی بڑی تعداد جلاوطن ہو چکی تھی)۔
یہ “صابرا اور شتیلا قتلِ عام” تھا، جس نے دنیا کو دہلا دیا۔ اسرائیلی فوجیوں نے اسے ہونے سے روکا نہیں تھا۔ نہ صرف باقی دنیا میں بلکہ اسرائیل کے اندر یہ مناظر دیکھ کر شہری احتجاج کرنے نکل آئے۔ اسرائیل کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ تل ابیب میں ہوا جس میں اس واقعے کی انکوائری اور فوج کو واپس بلانے کا مطالبہ تھا۔ اسرائیلی سپریم کورٹ کے صدر اسحاق کاہان کی قیادت میں کاہان کمیشن بنایا گیا جس نے شیرون اور ایتن کو مجرمانہ غفلت کا قصوروار قرار دیا۔ شیرون کو اس کے نتیجے میں وزارتِ دفاع سے استعفیٰ دینا پڑا۔
اسرائیل کے لئے طویل قبضہ رکھنا ممکن نہیں رہا تھا۔ بیگن نے اگست 1983 میں استعفیٰ دے دیا۔ ان کی جگہ لیکود پارٹی کے اسحاق شامیر آ گئے۔ اگلے اڑھائی سال میں جون 1985 تک فوج لبنان سے واپس آ چکی تھی۔ اسرائیل کی سرحد سے دس میل آگے سیکورٹی زون بنایا گیا تھا۔ یہاں پر کچھ فوج باقی رہی تھی۔ یہ علاقہ ایک اور کرسچن ملیشیا ساوٗتھ لبنان آرمی کے سپرد کر دیا گیا تھا جسے اسرائیل فنڈ اور ہتھیار دیتا تھا۔
مئی 2000 میں اس وقت کے وزیرِ اعظم ایہود باراک نے یہاں سے یکطرفہ طور پر فوج کا مکمل انخلاکر دیا۔ یہ ان کے انتخابی منشور میں کیا گیا وعدہ تھا۔ اور اس کے ساتھ اسرائیل کا لبنان چیپٹر اختتام پذیر ہوا۔۔
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں