“برطانیہ میں پھیپھڑے کے کینسر کی شرح بڑھ رہی ہے۔ پچھلے بیس سال میں یہ پندرہ گنا بڑھ چکی ہے۔ اس معاملے پر تحقیق کئے جانے کی ضرورت ہے”۔ یہ برطانیہ میں محکمہ شماریات کی طرف سے 1947 میں محکمہ صحت کو بھیجا گیا الرٹ تھا۔
محکمہ صحت نے میڈیکل ریسرچ کونسل کو کہا کہ اس موضوع پر کانفرنس منعقد کی جائے اور اس کی وجہ تک پہنچا جائے۔ یہ کانفرنس لندن میں ہوئی۔
ایک ماہر نے نوٹ کیا کہ بڑے شہروں میں پھیپھڑوں کے کینسر کی شرح دیہاتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ (یہ درست تھا اور شہروں میں سگریٹ نوشی زیادہ عام تھی)۔ ماہر کی طرف سے نکالا گیا نتیجہ تھا کہ اس کی وجہ شہروں کا دھواں ہے۔
دوسرے ماہرین نے فلو، دھند، دھوپ کی کمی، ایکسرے، سڑکوں کے تارکول، کوئلے کی آگ، صنعتی آلودگی، گیس اور گاڑیوں کے دھویں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس تمام فہرست میں سگریٹ کا دھواں نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ ماہرین کے خیالات میں اس قدر زیادہ فرق تھا، کونسل نے آسٹن بریڈفورڈ ہل کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ اس کے فیکٹر کا سراغ لگائیں۔ ہل ایک بائیوسٹیٹسٹک کے مشہور ماہر تھے جنہوں نے رینڈمائزڈ ٹرائل کا طریقہ بنایا تھا۔
اس تحقیق کے لئے مختص کئے گئے فنڈ مضحکہ خیز طور پر کم تھے۔ یکم جنوری کو کونسل نے اس کا بجٹ منظور کیا۔ اس میں ایک میڈیکل ریسرچر کے لئے 600 پاونڈ، دو سماجی کارکنان کے لئے 350 پاونڈ کی تنخواہ کے علاوہ 300 پاونڈ کا بجٹ دوسرے اخراجات کے لئے منظور ہوا۔ ہل کو اس تنخواہ میں چھتیس سالہ رچرڈ ڈول ملے۔ انہوں نے اس سے پہلے کبھی اتنی بڑی سٹڈی نہیں کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیویارک میں 1948 میں ارنسٹ وائنڈر کو بھی ایسا گمان ہوا تھا۔ وہ میڈیکل سٹوڈنٹ تھے اور انہوں نے ایک بیالیس سالہ مریض کو دیکھا تھا جن کی وفات سانس کی نالی کے کینسر سے ہوئی تھی۔ وہ تمباکو نوش تھے اور ان کا اندرونی جسم تمباکو کی کالک سے داغدار تھا۔ جو سرجن اس کا آپریشن کر رہے تھے، ان کے لئے یہ امر قابلِ توجہ نہیں تھا کیونکہ زیادہ تر سرجنز کی طرح انہیں یہ دیکھنے کی عادت ہو چکی تھی۔ لیکن وائنڈر کے لئے یہ پہلا تجربہ تھا۔ سیاہ داغدار پھیپھڑا اور کینسر ۔۔۔ یہ تعلق ان کے سامنے انہیں گھور رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وائنڈر نے میڈیکل کی تعلیم مکمل کی اور اپنی تحقیق کے لئے انہوں نے تمباکونوشی اور کینسر کے تعلق کا پتا لگانے کے لئے فنڈ لینے کے لئے اپلائی کیا۔ ان کی درخواست رد کر دی گئی کہ یہ بے فائدہ سٹڈی ہے۔ انہوں نے امریکہ کے سرجن جنرل کو لکھا اور اس سے پہلی تحقیقات کا حوالہ دیا جس میں یہ خیال ظاہر کیا گیا تھا۔ لیکن انہیں بتایا گیا کہ یہ ثابت نہیں کیا جا سکے گا۔
“ایسا تعلق دودھ پینے اور کینسر کے درمیان بھی نکالا جا سکتا ہے۔ مریضوں کے جتنے بھی انٹرویو کر لئے جائیں، تسلی بخش جواب نہیں ملے گا۔ ایسی کوئی وجہ نہیں بنتی کہ ہم اس سمت میں کوئی تجرباتی کام کریں”۔ یہ جواب انہیں سرجن جنرل کی طرف سے دیا گیا۔
وائنڈر کو تلاش کرنے پر ایک استاد مل گئے۔ یہ ایوارٹس گراہم تھے۔ گراہم اس تعلق پر یقین نہیں کرتے تھے اور خود بلا کے سگریٹ نوش تھے۔ لیکن انہوں نے وائنڈر کی مدد کرنے کی حامی بھر لی۔
اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ گراہم چاہتے تھے کہ یہ ثابت ہو جائے کہ ایسا کوئی تعلق موجود نہیں اور دوسرا یہ کہ وائنڈر اس دوران سٹڈی ڈیزائن کی پیچیدگیاں سیکھ اور سمجھ لیں اور اس کی مدد سے پھیپھڑوں کے کینسر کا طریقہ متعین کیا جا سکے۔
وائنڈر اور گراہم کے ٹرائل کا طریقہ کار سادہ تھا۔ پھیپھڑوں کے کینسر کے مریضوں کا ایک گروپ بنایا جبکہ دوسرا کنٹرول گروپ ان مریضوں کا بنایا جنہیں کینسر نہیں تھا۔ ان سے سگریٹ نوشی کے بارے میں انٹرویو کئے گئے۔ دونوں میں سگریٹ نوشی کے تناسب کی پیمائش ہوئی۔ (یہ سیٹ اپ کیس کنٹرول سٹڈی کہلاتا ہے)۔
اس سٹڈی نے کوئی توجہ نہیں لی۔ جب وائنڈر نے اس کے ابتدائی نتائج پھیپھڑوں کی بائیولوجی کی کانفرنس میں پیش کئے تو اس پر کسی ایک نے بھی سوال نہیں کیا۔ یہ وہ غیراہم موضوع تھا جس میں شرکاء اپنا وقت اونگھنے میں گزارتے ہیں۔
(جاری ہے)
علم کی تحریریں۔۔۔۔ آپ کی علمی کاوشوں قابلیت اور علم دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔۔۔ یقینا ان تحریروں سے پڑھنے والوں نے بہت کچھ سیکھا اور جانا ہے۔
جواب دیںحذف کریں✍️👍