باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 3 مئی، 2022

بدن (17) ۔ دماغ کی خاموشی


دماغ کو مکمل طور پر بننے میں بہت وقت لگتا ہے۔ ٹین ایجرز کا دماغ تقریباً اسی فیصد مکمل ہوا ہوتا ہے۔ ابتدائی دو برسوں میں یہ سب سے تیزی سے بڑھتا ہے اور دس سال کی عمر تک پچانوے فیصد مکمل ہو چکا ہوتا ہے لیکن اس کے جوڑ (synapse) کی وائرنگ کی تکمیل 20 سے 25 سال کے درمیان ہوتی ہے۔ اس سے پہلے ایک فرد میں ٹھہراو اور خود احتسابی کی کمی ہوتی ہے۔ منشیات اور الکوحل کے زیادہ اثرات ہو سکتے ہیں۔
نیوکلئیس ایکمبین ۔۔ دماغ کے سامنے کا حصہ جس کا تعلق لذت سے ہے ۔۔۔ ٹین ایج میں بڑے سائز کا ہو چکا ہوتا ہے۔ جسم ڈوپامین کی زیادہ پیداوار کرتا ہے۔ اس نیوروٹرانسمٹر کا تعلق لذت سے ہے۔ اور اس وجہ سے ٹین ایج میں زندگی کے تجربات کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔ ٹین ایجرز کی موت کی سب سے بڑی وجہ حادثات ہیں۔ اور خاص طور پر اگر ایک گاڑی میں ٹین ایجر اکٹھے بیٹھے ہوں تو حادثے کا امکان چار گنا ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر کسی نے نیورونز کے بارے میں سنا ہوتا ہے لیکن دماغ کے دوسرے خلیات کے بارے میں زیادہ نہیں۔ گلیل خلیات نیورونز کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہیں۔ بہت عرصے تک خیال رہا ہے کہ یہ زیادہ اہم نہیں۔ خیال کیا جاتا رہا کہ ان کا بنیادی فنکشن نیورون کو فزیکل سپورٹ دینا ہے۔ ایسا سٹرکچر دینا ہے جہاں پر نیورون اپنا کام کر سکیں۔ لیکن اب ہمیں معلوم ہے کہ یہ بہت اہم کیمسٹری میں حصہ لیتے ہیں۔ اس میں مائیلین کی پیداور سے لے کر فضلات کی صفائی تک کے کام ہیں۔  نیورون کے برعکس ان کا طریقہ برقی کے بجائے کیمیائی ہے۔ یہ ان کی سٹڈی کو کچھ دشوار بنا دیتا ہے، اس لئے اس میں تحقیق کی رفتار فی الحال کچھ سست رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بات پر اتفاق نہیں کہ آیا دماغ نئے نیورون بنا سکتا ہے یا نہیں۔ 2018 میں کولمبیا یونیورسٹی کی ایم ٹیم نے اعلان کیا کہ ہپوکیمس کا حصہ یقینی طور پر نئے نیورون بناتا ہے۔ جبکہ کیلے فورنیا یونیورسٹی کی ٹیم نے اسی سال اس سے برعکس اعلان کیا۔ مشکل یہ ہے کہ اس بات کو پہچاننے کا کوئی آسان طریقہ نہیں کہ ایک نیورون نیا ہے یا نہیں۔
لیکن ایک بات جس پر کوئی اختلاف نہیں، وہ یہ کہ اگر ہم نئے نیورون بنا بھی سکتے ہیں تو یہ عمر رسیدگی کے ساتھ ہونے والے نقصان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
تاہم، دماغ بہت سے نقصان کو برداشت کر سکتا ہے۔ برطانوی ڈاکٹر جیمز لی فانو ایک کیس کا لکھتے ہیں جس میں ڈاکٹر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک شخص کی کھوپڑی میں ایک بہت بڑا ٹیومر دو تہائی جگہ لے چکا تھا اور یہ غالباً اس کے بچپن سے تھا۔ بہت کم جگہ دستیاب ہونے کی وجہ سے اس کے دماغ کے فرنٹل لوب نہیں تھے اور کئی دوسرے علاقے بھی نامکمل تھے۔ لیکن باقی ایک تہائی دماغ نے فرائض سنبھال لئے تھے اور اس قدر زبردست طریقے سے ایسا کیا تھا کہ نہ ہی اس شخص کو اور نہ ہی کسی دوسرے کو شک پڑا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی تمام تر خاصیتوں کے باوجود، دماغ ایک عجیب خاموش سا عضو ہے۔ دل دھڑکتا ہے، پھیپھڑے ابھرتے اور پچکتے ہیں۔ آنتیں آوازیں نکلتی ہیں۔ جبکہ دماغ میں کچھ ایسا نہیں جس سے شک ہو کہ یہ ہماری سوچ کا مرکز ہے۔
اس لئے یہ تعجب کی بات نہیں کہ دماغ کے بارے میں ہماری سمجھ سست رہی ہے۔ اور اسی وجہ سے کئی کلچرز میں یہ غلط فہمی بھی رہی ہے کہ ہماری سوچ میں دل یا معدے کا کردار ہوتا ہے۔

(جاری ہے)




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں