باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 30 جون، 2023

فطرت سے سبق (3) ۔ تنظیم


“اوسطاً دیکھا جائے تو زیادہ تنوع کا مطلب نباتات کی کمیونٹی میں میں زیادہ پیداوار ہے۔ ہم گریس سے پرتگال اور آئرلینڈ اور شمالی امریکہ میں کھیتوں اور میدانوں میں جو تجربات کئے ہیں، وہ دکھاتے ہیں کہ اگر کسی قطعہ اراضی میں پودوں کی انواع کی تعداد کو نصف کر دیا جائے تو پیداوار دس سے بیس فیصد تک گر جاتی ہے۔ اگر کسی قطعے پر ایک ہی قسم کا پودا ہو تو یہ ایسے قطعے کے مقابلے میں نصف سے کم رہ جاتی ہے جہاں پر 24 سے 32 کے درمیان انواع ہوں۔ اور اس سے زمین کی زرخیزی کا نقصان بھی بڑھ جاتا ہے جس سے پیداوار مزید گرتی جاتی ہے”۔
یہ ماہرِ نباتات ڈیوڈ ٹلمین کا کہنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدرت کی مضبوطی کا ایک اور طریقہ اس کی تنظیم کا ہے۔ مقامی کمیونیٹی جو ایک لچکدار فریم ورک میں جڑی ہوتی ہے اور پھر ان کی آپس میں لچکدار تنظیم۔ اور اس طریقے سے کل اپنے اجزا سے زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ کھرب ہا کھرب نیٹورک منسلک ہوتے ہیں۔ خوردبینی جانداروں سے لے کر بڑے اور پھر اس سے بڑے ایکوسسٹم بنتے ہیں، جن کا ہر ایک یونٹ خود ایک کمیونیٹی ہے جو آپس میں ملکر پھلتا پھولتا ہے۔
لوجوائے کہتے ہیں کہ “ایک جراثیم سے لے کر بڑے شکاری جانور تک ایکوسسٹم ایک یونٹ کی طرح کام کرتا ہے اور جب ایکوسسٹم ایسے کھربوں دھاگے سے بُنا گیا ہو تو اسے توڑنا بہت مشکل ہے۔ یہ نظامِ قدرت کی مضبوطی ہے۔ یہ زندگی کا جال ہے۔ زرِ گل پھیلانے والے کیڑے جینیاتی تنوع کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور پھر جواب میں پودے انہیں رس دیتے ہیں۔ ہر انفرادی سسٹم ایسے ہی مل جل کر چلتا ہے۔ زندگی نے سیارے پر قبضہ ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی سے نہیں بلکہ ایک دوسرے سے نیٹورک بنا کر کیا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدرت کے نظام میں علاقے اور جگہ اور گھر ہیں۔ لیکن کوئی “بادشاہ” نہیں۔ (شیر صرف بچوں کی کہانیوں میں جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے)۔ ایک صحتمند ایکوسسٹم میں نباتات، حیوانات، خوردبینی جاندار، کیڑوں، اور ان کے آپسی تعلقات کا ماحولیاتی توازن ہوتا ہے۔ اور یہ ایکوسسٹم بھی جامد نہیں۔ اسے روز اپنی تعمیرِنو اور اپنا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ اس میں انواع ابھرتی اور مٹتی ہیں۔ ایک دوسرے سے مقابلے پر رہتی ہیں۔
قدرت کا یہ اہم سبق ہے کہ استحکام جمود میں نہیں ہے۔ استحکام کبھی نہ ختم ہونے والے dynamism سے ہے۔ ایسا نظام جو بالکل مستحکم ہو، وہی ہوتا ہے جو اپنی موت کے دہانے پر ہو۔ استحکام کے لئے مسلسل تبدیلی کی قبولیت درکار ہے۔ اس کے کسی بھی شریک کو اپنی جگہ for granted نہیں ملتی۔ بڑے پیمانے پر stable جبکہ چھوٹے پر variable۔
ماہرِ معیشت ہرمین ڈیلی کہتے ہیں کہ انسانی معاشروں اور معیشت کے لئے بھی  یہی اصول ہے۔ سب سے کامیاب ایکوسسٹم اور کامیاب ممالک وہ ہیں جو تبدیلیوں کو نظام میں جذب کر سکتے ہوں۔
(جاری ہے)




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں