باتیں ادھر ادھر کی

Post Top Ad

جمعرات، 6 ستمبر، 2018

راولپنڈی کی ٹیکسی - رواج کیسے شروع ہوتے ہیں؟


38646160_10205172392306386_8866393631024480256_n
اسلام آباد میں رکشہ لے جانے کی ممانعت رہی ہے اور اس وجہ سے راولپنڈی میں بھی رکشہ بہت کم نظر آتا ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں اس کی جگہ پر سوزوکی ایف ایکس ٹیکسی بہت عام ہے۔ پیلی چھت اور کالی باڈی والی اس گاڑی کے پیچھے تین سٹیکر نظر آئیں گے جن پر آر، اے اور کے لکھا ہو گا۔ یہ یہاں کی روایت ہے۔ یہ روایت کیسے پڑی؟ اگر ٹیکسی والوں سے پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ وہ اس لئے لگاتے ہیں کہ باقی سب نے لگایا ہوا ہے۔ جو یہ سٹیکر بیچتے ہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ اس لئے بیچتے ہیں کہ اس کے خریدار بہت ہیں۔ اس کہانی کا راز جاننے کا بیڑا ایک نوجوان نے اٹھایا۔ پوری تفصیل دیکھنے کے لئے لنک میں دی گئی ویڈیو دیکھیں۔
اگر نہیں دیکھنا چاہتے تو خلاصہ یہ ہے کہ یہ کسی خفیہ تنظیم کا سمبل نہیں۔ ایک مکینک جن کا نام رستم آصف خان تھا، انہوں نے یہ کام شروع کیا کہ جس گاڑی کی مرمت کرتے، اس کے پیچھے اپنے نام کے ابتدائی حروف کے سٹکر لگا دیتے۔ یہ اس روایت کا آغاز تھا۔ اس پر عمل کرنے والوں کو، یہ سٹیکر چھاپنے والوں کو، بیچنے والوں کو اور اپنی گاڑی پر چسپاں کرنے والوں کو اس کا کا علم نہیں۔ حالانکہ اس حالانکہ اس کا آغاز پرانی بات نہیں اور شروع کرنے والے مکینک کی دکان بھی ابھی تک وہیں پر ہے۔
یہ تو راولپنڈی کی ٹیکسیوں کی بس ایک دلچسپ کہانی تھی۔ کیا آپ کو اپنے آس پاس اس قسم کے رواج نظر آتے ہیں؟
دوسرا سوال آپ سے یہ کہ جب بھی آپ کوئی چیز دیکھتے ہیں تو کیا آپ کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کوئی چیز ویسی کیوں ہے جیسی نظر آتی ہے؟ راولپنڈی اسلام آباد میں لاکھوں لوگ روزانہ سڑک پر سفر کرتے ہیں اور ان کا یہ روز کا مشاہدہ ہے۔ ہر کوئی نظر آنے والے منظر کی وجہ نہیں سوچتا۔
اس پر ویڈیو یہاں سے
https://youtu.be/k4WNMU0bDaw

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

میرے بارے میں