باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 6 ستمبر، 2018

پانی کا گلاس


آپ کمرے میں صوفے پرفارغ بیٹھے ہیں۔ لیکن آپ کا جسم فارغ نہیں۔ اس کو بہت سے کام کرنے ہیں۔ جسم کا پی ایچ، نمی کا لیول، خون کا دباؤ، درجہ حرارت اور بہت سی چیزیں ریگولیٹ کرنا ہیں۔ گرمی زیادہ ہو رہی ہے۔ باہر کا زیادہ ہوتا درجہ حرارت جسم کے لئے اچھا نہیں۔ اس نے ٹھنڈا کرنے کے لئے جسم سے پانی پسینے کی صورت میں خارج کرنا ہے۔ جلد کے نیچے چربی کی باریک سی تہہ ہے۔ یہ جسم کو واٹر پروف بناتی ہے۔ جب آپ نہاتے ہیں تو پانی اندر نہیں جاتا۔ پسینے کو خارج کرنے کے لئے اس تہہ میں باریک سی سرنگیں کھل گئیں ہیں۔ ان سے نکلنے والے قطرے اب جلد کے اوپر نمودار ہونا شروع ہو گئے۔ چلتی ہوا ان میں سے مالیکیول اڑا کر لے جا رہی ہے۔ یہ اڑنے والے مالیکیول وہ ہیں جو زیادہ توانائی رکھتے ہیں اور یہ حرارت ساتھ لے اڑے ہیں۔ جسم کچھ ٹھنڈا ہو جائے گا۔
جسم میں پانی کم ہو گیا ہے۔ بہت سے خلیوں نے آپس میں کوآرڈینیٹ کیا ہے۔ فیصلے لئے گئے ہیں اور غیر شعوری طور پر جاری یہ عمل شعور تک پہنچ گیا ہے۔ آپ کو پیاس لگ چکی ہے۔ پانی پینے کا فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔
دماغ اکیلا کسی کام کا نہیں۔ اسی باقی جسم کے ساتھ مل جل کر کام کرنا ہے۔ باقی جسم سے یہ جوڑ اتنے ہی اہم ہیں جتنی دماغ کے اپنے خلیوں کے درمیان۔ اندرونی رابطہ اعصابی فائبر کے ذریعے ہوتا ہے۔ پتلے اور لمبے خلیے جو جسم کی برقی تاریں ہیں۔ یہاں سے چارجڈ ذرات گزریں گے۔ دماغ کا خلیہ ایک سگنل شروع کرتا ہے، جو ایک برقی ڈامینو گراتا جاتا ہے۔ پہلے فائبر کے آخر میں اگلا فائبر ہے۔ ان کی ممبرین سے سگنل آگے سے آگے چلتا جائے گا۔ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقفے سے یہ ٹانگ تک پہنچ گیا ہے۔ اس طرح ایک کوآرڈینیشن سے ٹانگ کے پٹھوں تک سگنل پہنچ رہے ہیں اور آپ صوفے سے اٹھ گئے ہیں۔ پاؤں سے فرش محسوس ہونا یا وہ ہلکی سی ہوا کا محسوس ہونا بھی اسی اعصابی نیٹ ورک پر ہو گا۔
آپ کے اندر ہونے والی معلومات کا تبادلہ تیزی سے اور بڑی مقدار میں ہو رہا ہے۔ الیکٹریک نرو سگنل اور کیمیکل پیغامات چل رہے ہیں۔ ہمارے جسم کے اعضاء اور سٹرکچر مل کر ایک واحد جسم بناتے ہیں، اس لئے نہیں کہ ہم بس جڑے ہوئے ہیں بلکہ اس کی گوند یہ معلومات ہے۔ اس معلومات کی وسیع، کوآرڈینیٹڈ، اوورلیپ کرنے والی بہتی ندیوں نے ہمیں جوڑا ہوا ہے۔ ہم انفارمیشن مشین ہیں۔ دس ملین ملین خلیوں سے بنی ہوئی جس میں سے ہر ایک خلیہ خود اربوں مالیکیول سے بنی پیچیدہ مشین ہے۔
آپکا ری ایکشن اتنا سست اس لئے ہے کہ سب نے مل کر کام کرنا ہے، اس قدر زبردست پیچیدگی میں۔ اس کی قیمت سستی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ پلک جھپکنے کو ہم انتہائی تیز سمجھتے ہیں حالانکہ اس میں ایک تہائی سیکنڈ لگ جاتا ہے اور اس عرصے میں جسم کے اندر کئی ملین پروٹین بن چکے ہوتے ہیں اور اربوں آئن ہمارے اعصابی سائنیپسز کو پار کر چکے ہوتے ہیں۔
چلتے وقت آپکی انفارمیشن مشین پوری قوت سے چل رہی ہیں اور آپ کو کچن کی طرف لے جا رہی ہے۔ آپ روشنی میں نہائے ہوئے ہیں لیکن یہ آپ کے جسم سے باہر ہے۔ روشنی کا سمندر آپ تک دنیا کی معلومات لا رہا ہے۔ اس کا بس ایک چھوٹا سا حصہ آپکی آنکھ کی پتلی پر پڑے گا جو ایک انچ کے آٹھویں حصے کے سائز کا ہے۔ اس چھوٹے سے سیمپل میں موجود معلومات آپ کے لئے دنیا کو پہچاننے کی کھڑکی ہے۔ اس کے گرد باریک سا شفاف لینز اس روشنی کی لہر کی رفتار بدل دے گا۔ چھوٹا سا مسل اس کی شکل بدل کر فوکس دے گا اور ایک عکس شعاعوں کو مرکوز کر کے آنکھ کے پیچھے بنا دے گا۔ اس سے آپ دنیا کو پہچان لیں گے۔ آپ کے کانوں کے درمیان مائع توازن برقرار رکھنے میں مدد کرے گا اور اس کے گرد سنسر آپکی راہنمائی کریں گے کہ پٹھے کیسے ہلانے ہیں۔ گریویٹی اور ٹانگوں اور بازوؤں کے پنڈولم استعمال کرتے آپ فریج تک پہنچ گئے ہیں۔
حرارت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے والی ٹیکنالوجی کے اس ڈبے سے ٹھنڈا پانی اب آپ اپنے گلاس میں انڈیل رہے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں