باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 7 ستمبر، 2018

الگ نگاہیں، الگ نظارے - کمپلیمنٹریٹی


کمپلیمنٹریٹی ایک خیال ہے کہ ایک ہی سسٹم کو دیکھنے کے الگ طریقے ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے ہر طریقہ اپنے اندر مفید اور مربوط ہو سکتا ہے لیکن مختلف طریقے آپس میں نامطابقت رکھ سکتے ہیں۔ یہ خیال پہلی بار کوانٹم تھیوری کی ایک حیران کن خصوصیت کے طور پر شروع ہوا تھا لیکن نیلز بوہر کی طرح میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اس خیال کی دانائی کا اطلاق وسیع تر ہے۔
کوانٹم تھیوری میں یہ کیسے کام کرتا ہے؟ کسی سسٹم کو بیان کرنے کی آخری حد ایک ویو فنکشن کے طور پر ہے لیکن ویو فنکشن خود کئی ایسی شے نہیں جس کا براہِ راست مشاہدہ کیا جا سکے۔ یہ ایک خام مال ہے جس کو ابھی پراسس ہونا ہے اور تراشے جانا ہے تا کہ یہ کارآمد شے بن سکے (یعنی، قابلِ مشاہدہ ہو سکے)۔ جس طرح خام لوہے سے بہت سی چیزیں بن سکتی ہیں۔ ہل بھی اور تلوار بھی۔ دونوں مفید ہیں لیکن اپنی اپنی جگہ پر۔ دونوں اس خام مال کو استعمال کر لیتی ہیں اور ایک بار اسے ایک چیز کے طور پر استعمال کر لیا گیا تو دوسری چیز کے لئے اس کا استعمال رُک گیا۔ اسی طرح ایک پارٹیکل کے ویو فنکشن کو پراسس کر کے اس کی جگہ کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے، یا پھر اس کی رفتار کی لیکن ایک ہی وقت میں دونوں کی نہیں۔ (ہائزنبرک کا اصولِ غیریقینیت)۔
کوانٹم تھیوری پیچیدہ ہے، لیکن حقیقت اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس سے معاملہ کرتے وقت لوگ کئی طرح کے نقطہ نظر رکھ سکتے ہیں اور رکھتے ہیں۔ سائنسی، قانونی، اخلاقی، جمالیاتی، مذہبی یا اور کئی طرح کے۔ ان میں سے ہر نقطہ نظر، اپنی اپنی جگہ پر مفید اور اہم ہو سکتا ہے۔ ہر ایک میں حقیقت کی مکمل پیچیدگی کو بالکل مختلف طریقوں سے پراسس کرنا ہوتا ہے جو اکثر آپس میں گہری نامطابقت رکھتے ہیں (مثال کے لئے نیچے دیکھ لیں)۔ کمپلیمنٹیریٹی وہ دانائی ہے جو اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے اور اس کا خیرمقدم کرتی ہے۔
والٹ وہٹ مین اپنی مشہور نظم میں اس کمپلیمنٹیریٹی کو گلے لگاتے ہیں اور کہتے ہیں، "کیا میں خود اپنی تردید کرتا ہوں؟ چلو، پھر میں خود اپنی تردید کرتا ہوں۔ میں بڑا ہوں۔ میرے اپنے اندرکئی دنیائیں ہیں"۔
کمپلیمنٹیریٹی کی ایک بڑی اہم مثال قانونی ذمہ داری کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ عام طور پر ہم بچوں یا ذہنی طور پر معذور افراد کو ان کے جرائم کے لئے ذمہ دار نہیں ٹھہراتے کیونکہ وہ اپنا رویہ کنٹرول کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ لیکن سائنس، ظاہری طور پر، یہ کہتی ہے کہ انسان ایک فزیکل آبجیکٹ ہے جس کا رویہ فزیکل قوانین کے مطابق ہے۔ سائنس کا یہ والا نقطہ نظر انسان کو سمجھنے کے لئے بہت مفید ہے اگر ہم پڑھنے والی عینک کا یا کسی دوا کا ڈیزائن کر رہے ہوں۔ لیکن اگر صرف اس نقطہ نظر کو رکھا جائے تو اس کے مطابق کوئی بھی اپنا رویہ کنٹرول نہیں کر رہا۔ پوائنٹ یہ ہے کہ انسان کی سائنسی تعریف کے مطابق، ان کوارکس، گلوؤن، الیکٹران اور فوٹون کے ویو فنکشن جو اسے بناتے ہیں، اس کے اعمال کو جج کرنے کا مفید طریقہ نہیں ہے۔ یہ نقطہ نظر کہ ہم اپنی مرضی کے مالک ہیں اور ہمارے اعمال ہمارا اپنا انتخاب ہیں، یہ کئی اور معاملات میں انسان کو دیکھنے کا ایک کم باریک اور زیادہ مفید طریقہ ہے۔ ایسا ہم قدرتی طور پر دیکھ لیتے ہیں اور یہ قانونی اور اخلاقی وجدان میں ہماری راہنمائی کرتا ہے۔
کمپلیمینٹریٹی کی اہمیت کو سمجھنا ہمارے تصور کو تحریک دیتا ہے۔ کیونکہ اس طرح ہم فرق زاویوں سے سوچنا شروع کر سکتے ہیں۔ اس سے دوسروں کے ساتھ ایک مشترکہ رواداری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ پھر ہم کسی دوسرے کے بظاہر عجیب لگنے والے نقطہ نظر کی قدر کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے نقطہ نظر کو بدلے بغیر بھی دوسروں کو سنجیدگی سے لے سکتے ہیں، خواہ یہ سائنسی نقطہ نظر ہو یا پھر کوئی بھی دوسرا۔
نوٹ: یہ فرینک ولچک کے آرٹیکل کا حرف بحرف ترجمہ ہے، اس کا لنک نیچے دیا گیا ہے۔ لفظی ترجمہ کرنے کی وجہ سے تحریر کا مزا وہ نہیں اس لئے بہتر ہے کہ اصل لنک سے پڑھیں۔ اسی اصول کے تحت نیوروسائنس اور زندگی میں گیپ کو جاننے کے لئے مائیکل گازانیگا کا آرٹیکل دوسرے لنک سے اور ہارورڈ پیٹی کا تیسرے لنک سے۔
فزسٹ فرینک ولچک کا آرٹیکل
https://www.edge.org/response-detail/27095
نیوروسائنٹسٹ مائیکل گازانیگا کا آرٹیکل
https://www.edge.org/response-detail/27049
بائیولوجسٹ ہارورڈ پیٹی کا آرٹیکل
https://www.informatics.indiana.edu/…/pu…/pattee/pattee.html

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں