باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 5 ستمبر، 2018

گریویٹی کی عینک سے سائنس کی تاریخ



ڈنمارک کے ٹائیکو براہے نے 1577 میں ہوین جزیرے پر آبزرویٹری قائم کی جس میں سیاروں اور ستاروں کی پوزیشن کا کئی برسوں تک مشاہدہ کر کے ان کی حرکت کے ماڈل بنائے۔ ٹائیکو کی لی گئی ریڈنگز کیپلر نے استعمال کر کے 1620 میں اسی سے سیاروں کی حرکت کے تین قوانین پیش کئے۔

اس سے نصف صدی بعد نیوٹن نے سوال اٹھایا کہ چاند نیچے کیوں نہیں گرتا تو اس کے جواب کی تلاش کے لئے کیپلر کے قوانین سے مدد لی اور گریویٹی کے مشہور قانون تک پہنچ گیا۔ اس قانون کی نظر سے جب اجرام فلکی کی حرکت کو بغور دیکھا گیا تو مشتری کے چاند کی حرکت میں آٹھ منٹ کا فرق نظر آیا۔ اس فرق پر غور کرنے سے علم ہوا کہ روشنی کی رفتار لامحدود نہیں اور پھر وہ معلوم کر لی گئی۔ (نیوٹن کے گریویٹی کے بغیر روشنی کی رفتار محدود ہونے کا پتہ اتنی جلدی نہ لگتا)۔ 1846 میں یورینس کے مدار کو کیلکولیشن سے مختلف ہونے کا پتہ لگا جس سے محض مساوات کی مدد سے کئے گئے حساب کتاب سے ہی ایک سیارے کی موجودگی کی پیش گوئی ہوئی اور کاغذ پر کی گئی کیلکولیشن کو جب ٹیلی سکوپ سے دیکھا گیا تو نیپچون عین اسی جگہ مل گیا جہاں مساوات نے بتایا تھا۔

کیونڈش نے اسی قانون کی مدد سے دو گیندوں پر تجربہ کر کےاٹھاریویں صدی میں گریویٹیشنل کانسٹنٹ نکالا جس سے زمین کو بھی تول لیا گیا۔
قدرت کے ایک اصول کے علم نے سیاروں کے مدار، کہکشاؤں کی حرکت، ستاروں کے بننے، ان کی شکل اور سیب کے گرنے تک سب سوالات کے جواب دے دیے اور اس علم نے نئی دریافتوں کی راستے بھی کھول دئے۔ ایک کسر باقی تھی جو کہ عطارد کا مدار تھا جہاں نیوٹن کا قانون درست نتیجہ نہیں دیتا تھا اور اس کی وجہ بھی نہیں مل رہی تھی۔ بالآخر، آئن سٹائن نے دس برس کی محنت کے بعد 1915 میں جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی پیش کی جس نے نیوٹن کے قانون کے تحت کی گئی پیش گوئیوں کے ساتھ ساتھ عطارد کے مدار کی بھی درست وضاحت کی اور پھر 1919 کے گرہن کے وقت سورج کی مڑتی روشنی بھی اس کی مساوات کے مطابق نکلیں۔

ان مساوات کو جب شوارزچائلڈ نے ستاروں کے اندر گریویٹی کی کیلکولیشن کے لئے استعمال کیا تو یہ بلیک ہول کا پتا دیتی تھیں اور پھر کاغذ پر نکالے گئے بلیک ہول کائنات میں بھی مل گئے۔ گریویٹی کی سمجھ کی بنیاد پر خلائی سفر، سیٹلائیٹ یا جی پی ایس جیسی ٹیکنالوجی ممکن ہوئی۔

جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی کی مساوات سے کائنات کا صحیح مشاہدہ کرنے کا طریقہ پتا لگا اور اس مشاہدے سے اس کے ماضی کے متعلق ہماری سمجھ مسلسل بہتر ہوتی جا رہی ہے۔ اور بہتر ہوتی ہوئی سمجھ پھر ایسے سوال لا کھڑے کر دیتی ہیں جن کا ہمیں علم نہیں۔

گریویٹی کے علم کی تاریخ کا مختصر خلاصہ صرف ایک مثال ہے۔ ابھی تک کے ہمارے علم کے مطابق کائنات کی ریاضی میں ثبات ہے اور اس کی خلاف ورزی ممنوع۔ جب بھی کسی چیز کو قوانین کی خلاف ورزی سمجھا گیا، وہ ہمارے علم کی کمی نکلی ہے۔ صدیوں سے جاری اس سفر میں جب ہم ایک راز ڈھونڈ نکالتے ہیں تو ہمیں ان سوالات کے جواب بھی مل جاتے ہیں جو پہلی نظر میں غیر متعلقہ لگتے ہیں۔ ملتے ہوئے جوابات پھر اسرار کی اگلی پرت کھول دیتے ہیں۔ پرت در پرت کائنات کے راز عیاں کرتے جانا سائنس ہے۔

جن مظاہر کی تحقیق پر سائنس دان کی عمر لگ جاتی ہے، ان کا نچوڑ پڑھنا آسان ہے۔ ہم میں سے ہی کچھ شاندار دماغوں نے علم کے دروازے کھولے، ان کے مطالعہ سے نہ صرف کائنات کی اس شاعری کی، بلکہ ہمارے اجتماعی دماغ کی قوت کی صحیح طور پر داد دی جا سکتی ہے۔ اپنی ذاتی رائے کو ایک طرف رکھ کر سائنس کے کسی بھی شعبہ کو سمجھنا واحد شرط ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں