باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 28 فروری، 2020

جین کا مستقبل ۔ جین (33)


تصور کریں ایسا دنیا کا جہاں پر بچے کے ہونے سے پہلے والدین کو انتخاب ہے کہ وہ آنے والے کی جینوم سیکونسنگ کر سکتے ہیں۔ ایسی میوٹیشن جو شدید معذوری کا سبب بنتی ہیں، انہیں شناخت کیا جا جکا ہے۔ اور اب اختیار والدین کے پاس ہے کہ وہ ابتدا میں ہی اس کو روک دیں۔ یا حمل سے بھی پہلے تفصیلی جینیاتی سکریننگ کے بعد صرف وہی بچے سلیکٹ کئے جائیں جو “نارمل” ہوں۔

جین کے پیچیدہ کمبی نیشن سے ہونے والے رجحانات کا علم ہو جائے۔ جب یہ بچے پیدا ہوں تو ان کے مطابق ان کی پرورش کی جائے۔ اگر کسی کا رجحان موٹاپے کی طرف ہے تو اس کے وزن کی نگرانی کی جائے، غذا اس کے مطابق رکھی جائے یا اس کی میٹابولک پروگرامنگ کی جائے جس میں ہارمون، ڈرگز اور بچپن کی جین تھراپی ہو سکتے ہیں۔ ایک بچہ جو ہائپرایکٹو ہو یا کسی چیز کی طرف توجہ دینے کا مسئلہ ہو، اس کی بیہیوئیر تھراپی یا شخصیت کے مطابق تعلیمی اداروں میں رکھا جائے۔

جب بیماریاں نمودار ہوں یا بڑھیں تو جین تھراپی کی مدد سے علاج کیا جائے۔ ٹھیک جین کو متاثرہ ٹشو میں داخل کیا جائے۔ مثال کے طور پر سسٹک فائبروسس ہو جانے کی صورت میں اس کو ٹھیک کرنے کے لئے جین کو مریض کے پھیپھڑوں میں ایروسول بنا کر انجیکٹ کیا جائے، جہاں یہ پھیپھڑے کو واپس نارمل حالت میں لا سکے۔ ایک بچی جو ایڈا ڈیفی شنسی کے عارضے کے ساتھ پیدا ہوئی ہے، اس کے ہڈی کے گودے میں ٹھیک کرنے کے لئے جین پلانٹ کئے جا سکیں۔ زیادہ پیچیدہ بیماریوں کے لئے جینیاتی تشخیص کو ڈرگز اور ماحول کی تھراپی کو استعمال کیا جائے۔

کینسر کی فیملی کی بیماریوں کا تفصیلی تجزیہ کیا جائے جس کے لئے کسی خاص کینسر کے ذمہ دار میوٹیشن کو ریکارڈ کیا جا ہو گا۔ ان میوٹیشنز کے ذریعے قصوروار پاتھ وے معلوم کئے جائیں جو خلیوں کے بڑھنے کی وجہ بنتے ہیں۔ ان کی مدد سے ٹارگٹ کی گئی تھراپی سے کینسر کے خلیوں کو مار دیا جئے اور نارمل سیل محفوظ رہیں۔

کوئی شخص پوسٹ ٹراما سٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہے، اس کا خون کا ٹیسٹ بنا دے کہ اس میں کونسا جین ویری انٹ ہے۔ ماہرِ نفسیات کو یہ دیکھ کر معلوم ہو جائے گا کہ اس کی بائیولوجی کی وجہ سے اس میں خوف کا خاتمہ کتنا آسان ہے۔ اس کے علاج کے سیشن اس کے مطابق ڈیزائن کئے جائیں۔ تھراپی کا انتخاب اس کی بائیولوجی کے مطابق ہو۔ ایسی ادویات دی جا سکیں جو ایپی جینیٹک مارکر مٹا دیں اور یہ تھراپی کے سیشن کے ساتھ استعمال کی جائیں۔ خلیاتی یادداشت کی صفائی پرانی تلخ یادوں کے اثرات کی صفائی آسان کر دے۔

جینیاتی تشخیص سے پیدائش کے وقت ٹھیک بچوں کا انتخاب اور جینیاتی مداخلت سے ان میں ترمیم کئی ہولناک اور تکلیف دہ بیماریاں ختم کر رہی ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر آپ نے پچھلا منظر احتیاط سے پڑھا ہے تو یہ بیک وقت امید، تعجب اور پریشانی کے جذبات پیدا کر سکتا ہے۔ آخر میڈیکل سائنس کا مقصد اور مطلب ہی کینسر، شیزوفرینیا سسٹک فائبروسس جیسی بیماریوں کو بروقت روکنا ہے۔ لیکن اس دنیا کے کئی پہلو ہمارا گھبرا دینے والے بھی ہیں۔ ایسی دنیا جس میں آنے کے لئے مرد و خواتین جینیاتی کمزوریوں کے امتحان سے گزرے ہوں گے اور پھر آنے کے حقدار ٹھہرے ہوں گے یا پھر ترمیم شدہ جینیاتی ترجیحات کے ساتھ آئے ہوں گے۔ رفتہ رفتہ بیماری غائب ہو جائے گی لیکن ساتھ ساتھ شناخت بھی۔ تکلیف کے ساتھ مہربانی بھی۔ ٹراما مٹا دئے جائیں گے اور ساتھ تاریخ بھی۔ وہ جو سب سے الگ ہوں گے، وہ ختم کر دئے جائیں گے۔ کمزوری حذف ہو جائے گی اور ساتھ نزاکت بھی۔ امکان کم ہونے کا لازمی مطلب انتخاب کم ہو جانا بھی ہے۔

جب انسانی جینوم پراجیکٹ شروع ہوا تھا تو ماہرِ جینیات جان سلسٹن نے ایک پرانا فلسفانہ سوال کیا تھا کہ کیا ایک ذہین شے اپنی انسٹرکشن پڑھ سکے گی؟ اس سے کہیں زیادہ گہرا مخمصہ اس وقت پیدا ہوتا ہے اگر یہ اپنے انسٹرکشن لکھ سکے۔ اگر جین جاندار کی فطرت اور قسمت طے کرتے ہیں اور وہ جاندار اپنی جین کے ذریعے اپنی فطرت اور قسمت طے کرنے لگے تو منطق کا دائرہ خود اپنے میں ہی بند ہو جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انیسویں اور بیسویں صدی کی میڈیکل سائنس قسمت اور انتخاب کے تصور لے کر آئی۔ قسمت کا سب سے یونیورسل اور کنکریٹ عمل ۔۔ بیماری ۔۔ اب میکانیکی اصطلاحات کے ذریعے سمجھا جا سکتا تھا۔ رِسک، ماحول، حالات، عادات، جیسی چیزوں کے سبب۔ انتخاب کا تعلق انفرادی نفسیات، تجربات، یادداشت، صدمات اور ذاتی تاریخ سے تھا۔ بیسویں صدی کے وسط تک شناخت، مزاج، پسند اور ترجیح کو نفسیات، فرد کے ماضی اور چانس کے ملاپ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

اکیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں ہم کاز اور ایفیکٹ کی ایک اور زبان سیکھ رہے ہیں۔ بیماری، شناخت، پسند، مزاج، ترجیحات اور بالآخر انتخاب اور قسمت ۔۔۔ کو جین اور جینوم کی زبان میں۔ اس کا مطلب ایسا لغو دعویٰ نہیں کہ جینز کے عدسے سے فطرت اور قسمت کے بنیادی پہلووں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے ماضی اور مستقبل کے بارے میں سب سے طیش دلانے والے خیالات کو زیادہ سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ جینز کا ہماری زندگی اور شخصیت اس سے زیادہ گہرا اور تنگ کرنے والا اثر ہے جس کا ہم تصور کرتے ہیں اور جس طرح ہم جینوم کو پڑھنا، تبدیل کرنا اور اس کو چھیڑنا سیکھیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم مستقبل میں قسمت اور انتخاب کو چھیڑ رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جو سب سے الگ ہے، وہ جو کچھ “کھسکا” ہوا ہے، کیا ہم اپنے علم سے اس کے عارضے کا علاج کرنا چاہیں گے؟ کیا اسے “نارمل” بنانا چاہیں گے؟ اگر ہاں تو اس کے ساتھ کیا اخلاقی، سماجی اور بائیولوجیکل خطرات ہیں؟ یا پھر دوسری طرف، کیا اس کو ٹھیک کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری نہیں؟ کیا ہمارا نالج ہمیں نئی طرح کی ہمدردی اور دوسروں کو سمجھنا سکھائے گا؟ یا کیا یہ نئی طرح کے تعصبات کو جنم دے گا؟ کیا ہم اس نالج سے “نیچرل” کی تعریف ازسرِ نو کر سکیں گے؟

لیکن یہ “نیچرل” کیا ہے؟ ایک طرف تبدیلی، تنوع، میوٹیشن، تقسیم ہو جانا، بگاڑ، بہاوٗ نیچرل ہے۔ دوسری طرف مستقل ہونا، ثابت قدمی، تقسیم نہ ہونا، قائم رہنا بھی نیچرل ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ تضادات کا مالیکیول، ڈی این اے، ایک تضادات والے جاندار کا کوڈ رکھتا ہے۔ ہم اپنی اگلی نسل سے، اپنے آگے بھیجے گئے جین سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے جیسا ہو گا لیکن ہم اس میں مخالف پاتے ہیں، ہمیں ویری ایشن ملتی ہے۔ وہ لوگ جو میوٹنٹ ہیں، جو سب سے جدا ہیں، وہ خود ہماری نوع کی بقا کے لئے ضروری ہیں۔  ہمارے جینوم نے ایک متضاد قوتوں کے بیچ بڑا ہی باریک توازن رکھا ہوا ہے۔ ایک تار کے ساتھ مخالف تار کا جوڑا جو ماضی بھی رکھتا ہے اور مستقبل بھی۔ یادداشت اور خواہش کا مقابلہ کرواتا ہے۔

یہ ہم میں سب سے زیادہ انسانی چیز ہے۔ ہم اس کے کیسے نگہبان بنتے ہیں؟ یہ ہماری نوع کے لئے علم کا، فکر کا، فہم کا اور شعور کا شاید سب سے بڑا امتحان ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ختم شُد


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں