باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 6 ستمبر، 2018

کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج - ریاضی اور کچھ ممکنہ حل


ہماری فضا میں جتنی گیسز ہیں، ان میں سے زندگی کے لئے سب سے اہم کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے۔ آکسیجن کے بغیر زندگی ممکن ہے، کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بغیر نہیں لیکن اب انسانی سرگرمیوں سے اس کے ہونے والے اخراج سے اس کا تناسب بڑھ رہا ہے جو اس وقت ماحولیات کا ایک بڑا مسئلہ ہے اور گلوبل وارمنگ میں اس کا بڑا کردار ہے۔ اس وقت انسانی سرگرمیاں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ہونے والا اخراج سالانہ پینتیس ارب ٹن ہے جو پانچ ٹن فی کس بنتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو فارمولے میں لکھا جائے تو وہ یہ ہے۔ یہ مساوات گلوبل کایا آئڈینٹیٹی کہلاتی ہے۔
CO2 = P x S x E x C
P -> Number of people
S -> Services per person
E -> Energy per services
C -> Carbon per energy unit
یعنی ان چار اعداد کو ضرب دیں تو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا نمبر آئے گا۔ اب ان میں سے ہر عدد کو الگ الگ دیکھ لیتے ہیں۔
آبادی - عالمی میں ہونے والا اضافہ مسلسل ہے جس کی شرح میں کمی آ رہی ہے لیکن اس کو کم نہیں کیا جا سکتا۔
سروسز - یہ لوگوں کا معیارِ زندگی ہے۔ بجلی، خوراک، ٹرانسپورٹ، موبائل فون یا جو کچھ بھی استعمال ہوتا ہے، یہ اس کی اوسط ہے۔ اس میں بھی ہونے والا اضافہ مسلسل ہے اور اس میں کمی کا مطلب زندگی کے معیار میں کمی ہے۔
توانائی فی سروس - ایک کام کو کرنے میں کتنی توانائی درکار ہے۔ ان میں سے کچھ میں خاصی کمی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر، پچھلی کچھ دہائیوں میں روشنی میں درکار توانائی میں نوے فیصد کمی آئی ہے۔ ٹرانسپورٹ میں بھی کچھ کمی آئی ہے لیکن ایک حد سے زیادہ کمی ممکن نہیں۔
کاربن فی یونٹ توانائی۔ یہ توانائی پیدا کرنے کے طریقے پر منحصر ہے۔ فی یونٹ کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج اس پر منحصر ہے۔ اس وقت عالمی توانائی کا بڑا حصہ فوسل فیولز سے ہے۔ یہاں پر بہتری کا مارجن سب سے زیادہ ہے۔ ری نیو ایبل توانائی جیسے فوٹو وولٹیک، فوٹو تھرمل، ہوا سے توانائی وغیرہ جیسے طریقے ہیں لیکن ان میں مسئلہ توانائی کی ڈینسیٹی کا ہے جو بہت کم ہے اور پھر ان سے ملنے والی توانائی میں یکسانیت نہیں یعنی ہر وقت سورج یا ہوا نہیں، توانائی کی سٹوریج کی ابھی کوئی بھی اچھی ٹیکنالوجی نہیں۔
اس وقت توانائی کے متبادل طریقوں کے درجنوں مختلف آئیڈیاز پر مختلف ممالک میں کام ہو رہا ہے۔ کچھ خیالات میں فیوژن ری ایکٹر، یورینم 238 سے بجلی بنانے کی ٹیکنالوجی، شمسی توانائی کو خلا سے حاصل کرنا، ہائیڈروجن فیول، سٹوریج وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کاربن کم کرنے کے لئے پاور پلانٹ سے نکلنے والے کاربن کو ذخیرہ کرنے پر بھی کام ہو رہا ہے۔ کونسا بریک تھرو کب ممکن ہو گا، یہ کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن یہ اس وقت کا ایک بڑا چیلنج ہے۔
اس مسئلے سے سب سے زیادہ متاثر کون ہوں گے؟ وہ جو زیادہ غریب ہیں۔ بدلتے موسم سے فصلوں کا ضائع ہونا، خوراک کی قیمتوں کا اوپر جانا اور توانائی مہنگا ہونا پوری دنیا میں غریب لوگوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچائے گا۔
گلوبل وارمنگ کے مقابلے کے لئے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم کرنے کے علاوہ بھی خیالات ہیں۔ ایک اور بالکل ہی فرق اپروچ جیو انجینیرنگ ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ ماحول کو خود تبدیل کیا جائے۔ جب ہماری سرگرمیوں نے ماحول تبدیل کیا ہے تو کچھ تبدیلیاں اور سہی۔ یہ متنازعہ ٹاپک ہے لیکن اس میں کچھ اچھوتے خیالات بھی ہیں۔ مثال کے طور پر فوسل فیول جب نکالے جاتے ہیں تو گندھک بچ جاتی ہے۔ اس کو فضائی غلاف میں اوپر کی تہہ میں چھوڑا جائے تا کہ یہ حرارت روکنے کی ایک تہہ بنا لیں۔ ایک اور خیال پاور پلانٹ کی چمنیاں بہت اونچی کر دینے کا ہے تا کہ ان کا دھواں دھوپ روکنے کی تہہ بنا لے۔ ایک اور خیال سمندر سے مصنوعی بادل بنانے کا ہے جہاں پر بادلوں کے بیج، یعنی وہ ذرات جن پر بخارات جم کر بادل بناتے ہیں، ان کو سمندر کے اوپر چھوڑا جائے تا کہ بادل زیادہ بنیں اور دھوپ زمین تک کم پہنچے۔
یہ سب تحقیق اور ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ کے مسائل ہیں اور یہ جنگ غربت کے خلاف ہے۔ اس میں ہمارے کرنے کا کیا کام ہے؟ اس کے لئے اوپر کی مساوات پھر دیکھ لیں۔ آبادی پر کنٹرول اور توانائی کے ضائع ہونے اور کسی بھی طرح کے غیرضروری استعمال سے اجتناب۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں