باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 15 اکتوبر، 2018

اولمپکس سے میڈیکل سائنس تک - ہزار برس کا یکجائی کا سفر


رائیو میں 5 اگیست 2016 میں اولمپکس کی افتتاحی تقریب ہوئی۔ گیارہ ہزار کھلاڑی اپنے اپنے جھنڈے کے نیچے اس پریڈ میں شریک ہوئے۔ کونسے جھنڈے ہوں گے اور کون کس ملک کی طرف سے شرکت کرے گا، یہ کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ (فلسطین اور تائیوان کو چھوڑ کر)۔ جب بھی مائیکل فلپس گولڈ میڈل جیتتے تو ستاروں اور لکیروں والا جھنڈا 'سٹار سپرینگلڈ بینر' کی دھن پر بلند ہوتا۔ جب ایمیلی اینڈیول نے جوڈو کا تمغہ جیتا تو فرانس کے تین رنگوں والا جھنڈا 'مارسیلائی' کی دھن پر۔
 دنیا کے ہر ملک کا ایک ترانہ جو ایک ہی طرح کا ہے۔ چند منٹ لمبا ایک طرح کی موسیقی پر بجنے والا۔ چاہے پاکستان ہو، کانگو یا پیراگوئے۔ زیادہ تر کے بول بھی ایک ہی طرح کے ہیں۔ اپنے ملک کی خوبصورتی کے، ان کے لوگوں کے، اس سے وفاداری کے۔ مثال کے طور پر یہ کس ملک کے ترانے کا ترجمہ ہے؟ (اس میں سے اس ملک کا نام نکال دیا ہے)۔

میرا ملک، میرا وطن
وہ زمین جہاں میں نے اپنا خون بہایا ہے
یہاں پر میں کھڑا ہوں
مادرِ وطن کی حفاظت کے لئے
میرا ملک، میری قوم
میرے لوگ اور میری زمین
چلو اعلان کریں
ہم سب ایک ہیں
میری زمین زندہ باد، میرا وطن زندہ باد
میری قوم، میرا وطن، سارے کا سارا
ہم اس کی روح بنائیں، اس کا جسم جگائیں
اپنے عظیم ملک کے لئے
میرا عظیم ملک، آزاد اور خود مختار
میرا گھار اور میرا ملک جو میرا پیار ہے
میرا عظیم ملک، آزاد اور خود مختار
یہ عظیم ملک سدا قائم رہے

یہ ترانہ دنیا کے کسی بھی ملک کا ہو سکتا تھا۔ یہ پولینڈ، نائیجیریا، بولیویا یا کسی اور ملک پر بھی فِٹ ہو جائے گا۔ (یہ انڈونیشیا کا ترانہ ہے)۔

قومی جھنڈے، سارے کے سارے ایک ہی طرح کے ہیں۔ مستطیل کپڑے میں کچھ رنگ۔ (نیپال ایک استثنا ہے جہاں دو مثلثیں ہیں)۔ انڈونیشیا کے جھنڈے میں سفید پٹی کے اوپر لال ہے، پولینڈ میں لال پٹی کے اوپر سفید۔ موناکو کا جھنڈا تو بالکل انڈونیشیا کی طرح ہے۔ اگر کوئی شخص کلربلائیڈ ہے تو وہ بلجیم، چاڈ، آئیوری کوسٹ، فرانس، گنی، اٹلی، آئرلینڈ، مالی اور رومانیہ کے جھنڈوں میں تمیز نہیں کر سکتا۔ ان میں سے کئی ممالک آپس میں شدید اختلاف رکھتے ہیں، جنگیں بھی کرتے ہیں لیکن سوائے جنگِ عظیم کے دور چھوڑ کر ہر چار سال بعد اسی طرح کھیلنے کے لئے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔

اب ذرا ایک ہزار سال پیچھے جا کر 1016 میں اولمپکس کا انعقاد کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ رائیو تو اس وقت ایک ٹوپی انڈینز کا چھوٹا سا گاؤں تھا۔ ایشیا، افریقہ اور یورپ میں رہنے والوں کو علم ہی نہیں تھا کہ یہ بھی دنیا میں ہے۔ اور ہوائی جہازوں کے بغیر کھلاڑی پہنچتے بھی کیسے؟ ہر علاقے کی کھیلیں الگ الگ تھیں، مقابلے کس کے ہوتے؟ اور اگر دوڑنے کی کھیل ہر جگہ تھی تو رولز پر کیسے اتفاق ہوتا؟ لیکن چلیں یہ ضمنی مسائل چھوڑ کر یہ طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شرکت کون کرتا؟ چین میں سونگ سلطنت کسی کو اپنے برابر نہیں سمجھتی تھی۔ وہ اس میں اپنا دستہ بھیجنے میں اپنے بے عزتی سمجھتی جہان پر اس کو کوریا کی کوریو سلطنت یا ویت نام کی دائی کو ویت سلطنت کے ساتھ کھیلنا پڑے۔ بغداد کا اس وقت دعوی تو تھا لیکن حکومت عملی طور پر بغداد تک محدود ہو چکی تھی اور کئی علاقوں میں اپنی امارات اور سلطنتیں بن چکی تھیں۔ عرب میں قبائل خود مختار ہو چکے تھے۔ یہاں سے کون کون شرکت کرتا اور کس کی نمائندگی ہوتی؟ یورپ میں اس سے بھی بڑے مسائل تھے۔ آئوری کے نارمن شہر میں رہنے والا آئوری کے کاؤنٹ کی طرف سے شریک ہوتا، نارمنڈی کے ڈیوک کی طرف سے یا پھر فرانس کے کمزور بادشاہ کی طرف سے؟ سالوں کے اندر سیاسی اکائیاں بدل جاتی تھیں۔ اگر انگلیڈ اپنا دستہ 1016 میں بھیجتا تو کھلاڑیوں کی واپسی تک ڈین لندن پر قبضہ کر چکے ہوتے اور شاہ کنوٹ دی گریٹ نے انگلیڈ کو بحیرہ شمالی کی سلطنت میں ضم کر لیا ہوتا۔ اگلے بیس سال میں یہ سلطنت بھی ٹوٹ چکی ہوتی۔ اس سے دس سال بعد انگلینڈ پر نارمنڈی کے ڈیوک نے قبضہ کر لیا ہوتا۔

ان عارضی سیاسی اکائیوں کے پاس نہ جھنڈا تھا اور نہ ترانہ۔ یورپ کی سیاستی علامتیں انڈونیشیا، چین اور ٹوپی کی علامتوں سے بہت مختلف تھیں۔ کھیل جیتنے پر کیا کیا جائے؟ یہ طے کرنا بھی ممکن نہ ہوتا۔

جب آپ ٹوکیو میں 2020 کے اولمپک کھیل دیکھیں تو یاد رکھیں کہ یہ جو دیکھنے میں مقابلہ لگتا ہے، اصل میں ایک حیران کن عالمی معاہدہ ہے۔ تمغہ جیتنے اور جھنڈا بلند ہوتے ہوئے فخر اپنی جگہ لیکن اس سے بھی بڑا فخر یہ ہے کہ انسان اپنے تمامتر اختلافات کے باوجود حیران کن طور پر سیاسی طور پر ایک ہیں۔ دنیا کے نقشے پر 200 ملک بنے ہیں۔ آپس میں ڈپلومیسی کے پروٹوکول طے شدہ ہے۔ عالمی قوانین ایک ہی ہیں۔ ہر ملک میں ،خواہ علامتی ہی کیوں نہ ہو، عوامی نمائدگی کا تصور، انسانی حقوق، تمام مرد و خواتین کے حقِ رائے دہی کا حق اب موجود ہے۔ تہران، ماسکو، کیپ ٹاؤن، دہلی، لندن، پیرس، قطر میں پارلیمنٹ میں ملک کے معاملات پر مباحث ہوتے ہیں۔ جب لڑنے والے ملک عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک ہی فریم ورک استعمال کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی حفاظت، ملکی سالمیت اور ریاست کی بالادستی کا۔

یہی اکائی جہاں سیاست میں ہو چکی، وہاں اکنامکس مں بھی اختلافات کے باوجود ٹیکس، تجارت، ملازمت، بینکنگ، کرنسی کے سسٹم دنیا بھر میں ایک ہی جیسے ہیں۔ تعلیم میں سکول، کالج، یونیورسٹیوں کے نظام یکساں ہو چکے۔ یہاں تک کہ داعش نے سیاسی نظام اور تاریخ کو ریجکیٹ کیا اور تہذیبی آثار مٹائے لیکن جہاں پر امریکی صدر کی تصویر رکھنے والے اور انگریزی میں امریکہ کے نظام کی تعریف میں لکھے فقروں والے ڈالر بینکوں سے ملے، ان کو آگ نہیں لگائی۔

اگر میڈیکل کو بھی اسی طرح دیکھا جائے تو اگر آپ ہزار سال پہلے بیمار پڑتے تو آپ کا علاج کیسے ہوتا؟ اس کا انحصار اس پر تھا کہ آپ رہتے کہاں ہیں۔ اگر آپ مشرقِ وسطیٰ میں ہوتے تو جسم کے چار ہیومر کا توازن خراب ہونے کا بتایا جاتا اور ان کو خوراک اور کچھ ادویات سے ٹھیک کرنے کی کوشش ہوتی۔ اگر انڈیا میں ہوتے تو آئیرویدک ماہر آپ کو بتاتنے کے جسم کے تین دوشہ خراب ہو گئے ہیں اور جڑی بوٹیوں، مساج اور یوگا کی ترکیبیں بتائی جاتیں۔ سائبیریا میں کاہن کچھ تجویز کرتا اور افریقہ میں وچ ڈاکٹر۔ ہر علاقے اور قبیلے کی بھی اپنی روایات ہوتیں۔ کچھ سے ٹھیک بھی ہو جاتے لیکن کچھ علاج خود موت کا پروانہ تھے۔ یورپ، چین، افریقہ اور امریکہ میں ایک مشترک چیز یہ تھی کہ ایک تہائی بچے بلوغت سے پہلے مر جاتے۔

اگر آج بیمار پڑیں تو چاہے ٹورنٹو، ٹوکیو، جدہ، تل ابیب یا کراچی ہو۔ ایک ہی طرح کے ہسپتال ہوں گے جس میں سفید کوٹ پہنے ڈاکٹر جنہوں نے ایک ہی جیسے سائنسی تھیوری پڑھی ہوں گی، وہ علاج کے لئے آئیں گے۔ چند معمولی کلچرل فرق کو چھوڑ کر علاج کا طریقہ ہر جگہ پر ایک ہی ملے گا۔ جسم خلیوں سے بنا ہے، بیماریاں پیتھوجن کی وجہ سے ہیں اور اینٹی بائیوٹک بیکٹیریا کو مارتی ہیں۔ اس پر کوئی اختلاف نہیں۔ پیراسٹامول چین میں بھی مل جائے گی اور تنزانیہ میں بھی۔

ایٹم بم کا پروگرام چاہے برطانیہ کا ہو یا شمالی کوریا کا، بالکل ایک ہی جیسی فزکس کے ساتھ چلے گا۔ (اگر شمالی کوریا میں فزکس فرق پڑھی جاتی تو اس کے بم سے کسی کو خوف نہ ہوتا)۔ بیسویں صدی تک یہ اختلاف موجود رہے تھے۔ جرمنی میں آئن سٹائن کے فزکس کو یہودی فزکس کہہ کر ریجیکٹ کر دینے یا سوویت یونین نے ڈارون اور مینڈیل کی بائیولوجی کو مغربی بائیولوجی کہہ کر نہ پڑھانے کا خمیازہ بھگت لیا تھا۔ اب تاریخ تو ہر ملک میں اپنی اپنی پڑھائی جاتی ہے۔ فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی، ریاضی وغیرہ میں کوئی بھی فرق نہیں۔

یہ دنیا کیسی ہونے چاہیۓ؟ اس پر ہمارے اختلافات اس وقت تک رہیں گے، جب تک ہم ہیں۔ لیکن ان سب شدید اختلافات کے درمیان ہم بہت سے معاملات میں ایک ہی جیسے ہو چکے ہیں۔ کلچرل فرق ہمیشہ رہیں گے لیکن اس وقت دنیا کے اربن سنٹرز میں ڈھاکہ، دبئی اور نیویارک میں فرق اب زیادہ نہیں۔ یہ مماثلت سیمسنگ کا نیا موبائل فون ہر جگہ سے ملنے تک محدود نہیں۔ رائیو میں 2018 میں رہنے والا بارسلونا میں 2018 میں رہنے والے سے کہیں زیادہ مماثلت رکھتا ہے، بہ نسبت رائیو میں 1018 میں رہنے والے کے۔

  
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں