باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 9 دسمبر، 2018

طہارقو ۔ تہذیبوں کا ملن



دریائے نیل کس ملک میں ہے؟ شاید بہت سے لوگ اس کا جواب “مصر” دیں گے لیکن ایسا نہیں۔ نیل نو افریقی ممالک سے بہتا ہے اور جس طرح پانی کا مسئلہ بڑھ رہا ہے، ویسے اس پر بین الاقوامی تنازعات شدت اختیار کر رہے ہیں۔ اس وقت کا ایک بڑا تنازعہ ایتھیوپیا کے گریٹ ایتھیوپین ڈیم کی وجہ سے ہے لیکن اس دریا کا سب سے بڑا حصہ سوڈان میں ہے۔ مصر اپنے اس جنوبی ہمسائے سے تاریخ کے زیادہ حصے میں طاقتور رہا ہے لیکن ایسا ہمیشہ نہیں رہا۔ اس کے لئے ایک نظر تین ہزار سال پہلے۔

“سوڈان اُس وقت افریقہ کے دل میں موجود طاقتور تہذیب کا گڑھ تھا۔ یہ سیاہ فام افریقہ کی ایک بڑھتی طاقت تھا۔” زینب بداوی

سات سو سال قبلِ مسیح میں جب دنیا کی آبادی آج کا ایک فیصد تھی، بڑی اور تلخ جنگیں دنیا کا معمول تھیں۔ جنگ ہر طرف تھی اور اس دور کا ایک خاصہ خوشحال اور پرانی تہذیبوں پر قریب رہنے والوں کے حملے تھا۔ مصر میں اس کا مطلب یہ کہ فرعونوں کے عظیم سلطنت کو اس کے جنوبی ہمسائے نے فتح کر لیا تھا۔ یہ موجودہ شمالی سوڈان تھا جو اس وقت کُش کی سلطنت تھی۔

شیر کے دھڑ اور انسانی سر سے بنے پتھر کے sphinx مصری تہذیب کی علامات رہی ہیں۔ ابوالہول ان میں سے سب سے مشہور ہے لیکن تصویر میں لگا چھوٹا سفنکس انسان اور شیر سے زیادہ مصر اور سوڈان کے ملن کی علامت ہے۔ یہ بڑی اچھی طرح محفوظ ہے۔ شیر کی کمر، ایال اور طاقتور پنجے بالکل ویسے ہیں جیسے مصر میں ہر جگہ نظر آتے ہیں لیکن جس انسان کا سر اس پر بنا ہے، وہ روایتی فرعون نہیں۔ یہ سیاہ فام افریقی کا سر ہے۔ یہ عظیم افریقی بادشاہ طہارقو کا سر ہے۔ طہارقو وہ چوتھے فرعون بادشاہ تھے جنہوں نے کُش اور مصر کی مشترکہ سلطنت پر حکومت کی۔

ہزاروں سال تک مصر اپنے جنوبی ہمسائے کو ایک امیر اور مشکل کالونی کی نظر سے دیکھتا رہا تھا جہاں سے خام مال حاصل کیا جا سکتا تھا۔ سونا، ہاتھی دانت اور سب سے اہم غلاموں کی سپلائی۔ اس رشتے میں مصر غالب رہا تھا۔ لیکن 728 قبلِ مسیح میں طاقت کا توازن الٹ گیا۔ کُش سلطنت کے بادشاہ پیانخی نے ایک ایک کر کے مصر کے شہروں پر قبضہ کر لیا اور خرطوم سے لے کر سکندریہ تک ایک سلطنت بنا ڈالی۔ اس نئی ریاست پر حکومت کرنے کے لئے نئی قومی شناخت بنائی گئی جو مصر اور کُش کا ملاپ تھی۔

طہارقو، جن کا یہ مجسمہ ہے، اس سلسلے کے اہم ترین بادشاہ تھے۔ اس سلطنت کا سنہرا دور ان کا دورِ حکومت تھا۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے کُش کی تہذیبی روایات کو مصریوں پر نافذ کرنے کے بجائے مصریوں سے بھی روایات جذب کیں اور اپنائیں۔ ان میں سوڈان میں اہرام کی تعمیر بھی تھا اور مصری لکھائی کو اپنانا بھی۔ طہارقو نے کاوا میں عمارتیں بنوائیں جو مصری ڈیزائن کی تھیں۔ اس میں مصری آرکیٹکنٹ اور مصری مزدوروں نے کام کیا، جو ممفس سے بھیجے گئے تھے۔ تہذیبوں کے ملن کا یہ پیٹرن ہمیں تاریخ میں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ پھیلتی سلطنتیں اور ملتے انسان ایک دوسرے کی طرح ہوتے چلے جاتے ہیں۔  اس ملاپ میں ہمیں مصری اور سوڈانی دونوں کا انضمام نظر آتا ہے۔ آمون بھی اور آپادیمک بھی۔

سوڈان کا مصر پر تسلط تاریخ کا ایک بھلایا گیا باب ہے۔ مصر کی “سرکاری” تاریخ میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ کُش کی حکومت کو فرعونوں کا پچیسواں دور کہا جاتا ہے۔ سوڈان کی نظر سے تاریخ کی ایک اپنی کہانی ہے جو کم لوگ جانتے ہیں۔

طہارقو کا یہ مجسمہ کاوا سے ملا ہے اور بڑی طاقتور سیاسی علامت ہے۔ مصر اور سوڈان کا ملاپ، ماضی اور حال کا ملاپ (یہ ڈیزائن بارہوں صدی کے دور کے فراعین کا تھا)، انسان اور شیر کا ملاپ۔

کُش کی حکومت ڈیڑھ سو سال رہی۔ اسیریا کی پھیلتی سلطنت نے مصر کو ان سے چھین لیا۔ شروع کی جنگوں میں کُش فاتح رہے لیکن اسیریا نے آخر کار اس سلطنت کے شمالی حصے پر قبضہ کر لیا۔

دریائے نیل ایک مقام پر پتھریلے چینل سے گزرتا ہے۔ یہاں پر کشتی رانی مشکل ہے۔ یہ جغرافیائی فالٹ لائن سیاسی فالٹ لائن بھی ہے۔ اس نے اس وادی کے لوگوں کو تقسیم اور جنگوں میں مصروف رکھا ہے۔ شمال اور جنوب کے درمیان۔ یہ خونی تاریخ رومی دور میں اور بعد میں برطانوی تسلط کے وقت بھی دہرائی جاتی رہی۔

سوڈانی سیاسی تجزیہ نگار زینب بداوی کا اس پر تبصرہ، “سوڈان افریقہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ مغربی یورپ کے سائز کا ہے۔ دریائے نیل کا سب سے زیادہ حصہ اس میں سے بہتا ہے۔ مصری اور سوڈانی لوگوں کے درمیان ایک پرانا تعلق رہا ہے۔ مجھے دونوں ممالک میں نظریاتی طور پر بھی فرق نظر نہیں آتا۔ لیکن ان دونوں کے درمیان اس نیل کے پانی کی وجہ سے ہمیشہ سے سیاسی تناوٗ اور فرکشن رہی ہے۔ ہمارے سرحد نیل کے مشکل حصے نے بنائی ہے۔ اس پتھریلی راہداری سے کشتیاں نہیں گزر سکتیں۔ تاریخ کے بڑے حصے میں ان چٹانوں نے دونوں اطراف میں رہنے والوں کو جانی دشمن بنائی رکھا ہے۔ ہمارے لئے چیلنج ہے کہ ہم اس جغرافیہ کے ہمیشہ قیدی نہ رہیں۔”

طہارقو کا یہ مجمسمہ اس چیز کی علامت ہے کہ یہ دونوں سلطنتیں ہمیشہ الگ نہیں رہیں۔ حال میں پتہ لگنے والی کُش کی کہانی جدید آرکیولوجی کا اہم سنگِ میل ہے۔

سیاہ فام افریقہ کی عظیم سلطنتوں میں سے ایک کا یہ باب جہاں ہمیں ایک بار پھر یاددہانی کرواتا ہے کہ اس متغیر دنیا میں کبھی بھی کسی ایک گروہ کی اجارہ داری نہیں رہی، دوسرے طرف یہ کہ انسانوں کا ملاپ تہذیبوں کا ملاپ بن جاتا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے سیکھنے میں ہمشہ لچکدار رہے ہیں۔ تہذیبوں کے ملاپ سے نئی تہذیبیں جنم لیتی ہیں۔ یہ دنیا کا دستور ہے اور طہارقو کے سر والا مجسمہ اس کی ایک مثال۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں