باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 1 اکتوبر، 2019

ہومیوپیتھی کے فوائد



اٹھارہویں صدی میں ہم بیماریوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے۔ جراثیم دریافت بھی نہیں ہوئے تھے۔ خون نکال کر فاسد مادے دور کرنا، جلاب سے علاج اور کئی دوسرے غیرموثر اور کئی مواقع پر خطرناک علاج مستعمل تھے۔ ان حالات میں ایک جرمن ڈاکٹر سیوئیل ہانیمین کو اٹھارہویں صدی کے آخر میں ایک نیا خیال سوجھا۔

ہانیمین کو سوجھنے والا خیال یہ تھا کہ اگر کوئی ایسی شے مل جائے جو کسی صحتمند شخص میں بیماری کی علامات لے آئے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ شے اس بیماری کا علاج  ہے۔ ہانیمین کے ذہن میں آنے والا یہ خیال ہومیوپیتھی کہلایا۔ ہومیو کا مطلب “ملتا جلتا” جب کہ پیتھی کا مطلب علاج۔

ہاہنیمین کی سب سے پہلی ہومیوپیتھک دوا سنکونا کی چھال تھی، جس کو ملیریا کے علاج کے لئے تجویز کیا گیا تھا۔ انہوں نے بہت سی چھال استعمال کی تھی اور ملیریا جیسی علامات محسوس کی تھیں۔ لکھتے ہیں “میرے پیر اور انگلیاں ٹھنڈی ہو گئیں۔ غنودگی طاری ہو گئی۔ دل تیز دھڑکنے لگا، نبض اونچی اور تیز ہو گئی۔ کانپنے لگا اور بے چینی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ سر میں درد ہونے لگی۔ گال سرخ ہو گئے اور پیاس کی شدت محسوس ہوئی۔ بخار آنے لگا۔ جسم میں سختی، ذہن میں گڈمڈ سوچیں”

ہاہنیمین نے اس سے کیا نتیجہ نکالا؟ جو بھی سنکونا چھال لے گا، اسے یہ علامات محسوس ہوں گی۔ اس سے اہم خیال یہ کہ اگر اس کو سنکونا چھال تھوڑی مقدار میں دی جائے تو اس سے ایسی علامات ہونے کے بجائے دور ہو جائیں گی۔ اس روز ان کے ذہن میں آنے والا یہ خیال ہومیوپیتھک کا پہلا اصول ہے۔ اس کو علاج بالمثل کہا جاتا ہے۔ اور نہیں، اس میں کوئی مبالغہ نہیں، ہومیوپیتھی کی ایجاد کی یہ اصل کہانی ہے۔

کیمیکل اور ہرب دینا خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ ان سے اثرات ہو سکتے ہیں جیسا کہ اس روز ہاہنیمین کو ہوئے تھے۔ اس مسئلے کو انہوں نے دوسرے عظیم خیال سے حل کیا جو ہومیوپیتھی کا مرکزی فیچر ہے۔ انہون نے فیصلہ کیا (جی، فیصلے کے علاوہ کوئی لفظ اس کے لئے استعمال نہیں ہو سکتا) کہ اگر کسی شے کو پتلا کیا جائے گا تو اس کی علامات کا علاج کرنے کی خاصیتیوں میں اضافہ ہو جائے گا اور ساتھ ہی ساتھ سائیڈ ایفیکٹ بھی کم ہو جائیں گے۔ پھر وہ اس سے بھی آگے چلے گئے۔ کہ جتنا زیادہ پتلا کیا جائے گا، دوا اتنی زیادہ طاقتور ہو جائے گی (نہیں، اس میں کوئی مبالغہ نہیں)۔

سادہ طریقے سے ڈائلیوٹ کرنا بھی کافی نہیں تھا۔ ہاہنیمین نے ایک اور فیصلہ کیا۔ پتلا کرنے کے اس عمل کو بڑے خاص طریقے سے ہونا چاہیے۔ ڈائلیوٹ کرنے کے ہر سٹیپ پر دوائی کے برتن کو دس ضربیں لگا کر ہلایا جائے گا۔ اس کے لئے سخت لیکن الاسٹک چیز استعمال ہو گی۔ اس کے لئے ہاہنیمین نے گھوڑے کی کاٹھی بنانے والے سے لکڑی کا بورڈ بنوایا، اس کی ایک طرف کو چمڑے سے ڈھکا اور اس میں گھوڑے کے بال بھر دئے۔ برتن کو ضرب اس سے لگائی جاتی تھی۔ ہاہنیمین کی بنائی ادویات کی یہ برانڈ  کی شناخت تھی۔ ہومیوپیتھی کی دواساز فیکٹریوں میں دس زوردار ضربوں کا یہ طریقہ ابھی بھی کیا جاتا ہے۔ کئی بار خاص طور پر تیارکردہ روبوٹس کے ذریعے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہومیوپیتھ اب علاج کرنے کی بڑی ورائٹی دریافت کر چکے ہیں۔ اس میں تحقیق کا طریقہ پروونگ کہلاتا ہے۔ کچھ رضاکاروں کو ڈائیلیوٹ کردہ دوائی دی جاتی ہے۔ اس کے بعد ان کو اپنے احساسات، خواب اور جسم میں کسی بھی تبدیلی کو ایک ڈائری پر ریکارڈ کرنے کو کہا جاتا ہے۔ دو روز کے بعد ایک ماسٹر پروور ان علامات کی فہرست اکٹھی کر کے ایک کتاب میں درج کر دیتا ہے۔ یہ ہمیشہ کے لئے فائنل ہو جاتا اور یہ دوا ان علامات کی دوا بن جاتی ہے۔ اگر آپ کسی ہومیوپیتھ کے پاس جائیں تو اس کی موٹی کتاب انہی علامات سے آئی ہے اور وہ آپ کی علامات کو پروونگ کے عمل کے دوران کی علامات سے میچ کر کے دوا دے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاہنیمین نے صاف کہا کہ ان کو معلوم نہیں کہ یہ کیسے کام کرتا ہے اور ان کو بالکل نہیں پتا کہ جسم میں کیا ہو رہا ہے۔ ساتھ انہوں نے اس کا اضافہ بھی کیا کہ یہ پتا لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں تک ٹھیک ہے کہ اگر نہ بھی پتا ہو کہ کوئ چیز کام کیسے کرتی ہے اور وہ موثر ہے تو بھی ٹھیک ہے۔ البتہ سو سے زیادہ ٹرائلز یہ بتا چکے ہیں کہ اگر اس طریقہ علاج کا مقابلہ شکر کی گولیوں سے کیا جائے تو کانٹے دار رہتا ہے۔ کبھی میٹھی گولیاں جیت جاتی ہیں اور کبھی ہومیوپیتھی کی دوا۔ کئی لوگ اس طریقہ علاج سے صحت یابی کی کہانیاں بتائیں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کہانیاں غلط ہیں۔ ہمارا جسم خود بہت سے عارضوں کا علاج کر سکتا ہے۔ میٹھی گولیوں سے بھی افاقہ ہونے کا امکان اتنا ہی تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہیں، یہ پوسٹ ہومیوپیتھی کے بے فائدہ ہونے پر نہیں، اس کے فوائد پر ہے۔ اس کے غیرمتوقع فوائد بھی ہیں۔

ہومیوپییتھک علاج نے تاریخ کے بڑے اہم موقعے پر مروجہ طریقہ علاج کو واضح شکست سے دوچار کیا تھا۔ یہ انیسویں صدی میں لندن میں پھیلنے والی ہیضے کی وبا تھی۔ اس دوران لندن ہومیوپیتھک ہسپتال میں ہونے والی اموات مڈل سیکس ہسپتال کے مقابلے میں ایک تہائی تھیں۔ یہ صرف پلاسیبو ایفیکٹ نہیں، اصل فتح تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہیضے کا کوئی معلوم علاج نہیں تھا۔ مروجہ طریقہ علاج جونکیں لگوانا اور “گندا” خون نکلوانا تھا۔ یہ علاج بے ضرر نہیں تھا بلکہ نقصان پہنچاتا تھا۔ ہومیو پیتھک میں مریضوں کو دیا جانے والا پانی یہ ضرررساں کام نہیں کرتا تھا۔ جونکیں لگوانا مریض کو موت کے منہ میں دھکیلے کے مترادف تھا، ہومیوپیتھک ان خطرات سے پاک تھا۔ اس لئے ہیضے کے مریضوں کے لئے بہتر انتخاب رہا۔

یہ اہم دور اس لئے کہ یہ وہ وقت تھا جب انگریز برِصغیر پر قبضہ کر رہے تھے۔ ہومیوپیتھک آنے والے نوواردوں کے ساتھ انڈیا پہنچا۔ مسیحی مشنریز نے بنگال میں اس کا سب سے پہلا دواخانہ کھولا۔ انگریز سرکار نے اس کو قانونی حیثیت دے دی۔ میڈیکل سائنس کی ترقی کے ساتھ یہ یورپ میں تو پس منظر میں چلا گیا۔ دنیا میں اس طریقہ علاج کے عقیدت مند اب سب سے زیادہ برِصغیر میں موجود ہیں۔ (اگرچہ برِصغیر میں بننے والی ہومیوپیتھ ادویات بنانے والے دس ضربوں کی کئی بار اتنی پرواہ نہیں کرتے)۔

کئی مرتبہ ایسی صورتحال ہوتی ہے کہ لوگوں کو علاج کروانے کی خواہش ہوتی ہے لیکن اس کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ زکام، کمر کی کچھ تکالیف، کام کا سٹریس وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ اگر میڈیکل ٹریٹمنٹ کیا جائے اور اس صورتحال میں میڈیکل کی ہر دوا آزمائی جائے تو فائدہ نہیں ہو گا، سائیڈ ایفیکٹ ہی ملیں گے۔ ہومیوپیتھک کی مزیدار گولیاں ایسی صورتحال میں مفید علاج ہیں۔ جسم کی خود کی مرمت اور پلاسیبو اثر مل کر فائدہ دے دیں گے۔

اگر آپ ڈاکٹر ہیں اور آپ کو پتا ہے کہ مریض کا علاج نہیں کیا جا سکتا، کچھ عرصے بعد یہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا لیکن بغیر دوا کے، اس کی تسلی نہیں ہو گی تو ایسے مریض کو ہومیوپیتھک تجویز کرنا بھی ایک آپشن ہے۔ شرط یہ ہے کہ دوائی خالص ہومیوپیتھک کی ہو۔ اگر دوائی دستیاب نہ ہو تو کسی موٹی کتاب کی ورق گردانی کر کے خالی شیشی میں صاف پانی بھر کے مریض کو دے دیا جائے۔  ایسا نہ ہو کہ وہ کسی جونکیں لگوانے والے کے پاس چلا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہاں پر اس علاج کے کئی غیرمتوقع فوائد ہیں، وہاں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اگر قابل علاج مریض اپنا علاج کروانے کے بجائے میٹھی گولیوں پر انحصار کرنے لگے تو مرض بگڑ سکتا ہے۔

پسِ تحریر: اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ چقندر کے جوس سے ڈینگی کا علاج ہو سکتا ہے یا ہومیوپیتھک سے ملیریا دور ہو سکتا ہے یا دم کئے گئے پانی سے ٹائیفائیڈ دور کیا جا سکتا ہے یا چھوہارے سے دل کی تکلیف بہتر ہو سکتی ہے تو اسے ان کاموں سے منع مت کریں۔ صرف یہ تاکید کر دیں کہ روایتی علاج میں کوتاہی نہ کریں۔ چقندر کا جوس، چھوہارا، پانی یا ہومیوپیتھک کی اصل دوا ساتھ ساتھ بے شک لیتے رہیں۔ ان کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں۔

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں