نیوزی لینڈ سے پانچ سو میل مشرق میں چیتھم جزیرے پر بسنے والی موریوری آبادی کے لئے 1835 آزادی کا ایک سفاک خاتمہ تھا۔ 19 نومبر 1835 کو پانچ سو ماوٗری ایک بحری جہاز پر یہاں پہنچے تھے۔ ان کے پاس بندوقیں، ڈنڈے اور کلہاڑیاں تھیں۔ دوسرا بحری جہاز یہاں پر 5 دسمبر کو پہنچا جس میں چار سو ماوٗری جنگجو مزید پہنچے۔ ماوٗری نے آبادیوں میں اعلان کرنا شروع کیا کہ موریوری اب ان کے غلام ہیں اور جو مزاحمت کرے گا، قتل کر دیا جائے گا۔
موریوری میں جنگ کی روایت نہیں رہی تھی۔ ان کی تعداد حملہ آوروں سے زیادہ تھی لیکن انہوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ امن اور دوستی کی پیش کش کریں گے اور اپنے وسائل ان حملہ آوروں کے ساتھ بانٹنے کا طے کریں گے۔ اس سے پہلے کہ یہ پیش کش حملہ آوروں کو کی جاتی، ماوٗری نے اکٹھے ہو کر حملہ کر دیا۔ اگلے کچھ دنوں میں سینکڑوں موریوری قتل کر دئے گئے، کئی کو پکا کر کھا لیا گیا اور سب کو غلام بنا لیا گیا۔ اگلے کچھ برسوں میں یہ بھی آہستہ آہستہ کر کے مارے جاتے رہے۔ جب جی میں آتی، کسی کو مار دیا جاتا۔
بچنے والے ایک موریوری کے مطابق، “ماوٗری نے ہمیں ایسے ذبح کیا جیسے بھیڑ بکریوں کو کیا جاتا ہے۔ ہم دہشت زدہ تھے، بھاگ کر جھاڑیوں کے پیچھے چھپے، زمین میں سوراخ بنا کر اس میں گھسے، کہیں پر بھی جہاں دشمن سے بچ جائیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہم پکڑے گئے، مار دئے گئے۔ مرد، خواتین اور بچے، کسی کا لحاظ نہیں کیا گیا۔
فاتح ماوٗری کے مطابق، “ہم نے ان کو اپنی ملکیت بنا لیا اور ہر ایک کو پکڑ لیا۔ کسی ایک کو بھی نہیں بھاگنے دیا گیا۔ جس نے ہم سے بھاگنے کی کوشش کی، ہم نے اس کو مار دیا۔ کچھ دوسروں کو بھی مار دیا۔ یہ ہماری روایات کے مطابق تھا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موریوری ایک چھوٹی الگ تھلگ آبادی تھی جس میں قدیم طرزِ زندگی کے مطابق لوگ رہتے تھے۔ سادہ ٹیکنالوجی اور ہتھیار، بغیر کسی مرکزی قیادت اور تنظیم کے، جنگ کے معاملے میں ناتجربہ کار۔ ماوٗری ایک بڑی آبادی سے آئے تھے جو ایک دوسرے سے خونی جنگیں لڑتے رہے تھے۔ بہتر ٹیکنالوجی، بہتر ہتھیار اور مضبوط مرکزی قیادت۔ ظاہر ہے کہ جب یہ دو گروپ ایک دوسرے سے مدِ مقابل ہوئے تو ماوٗری نے موریوری کو ذبح کیا نہ کہ کوئی اور نتیجہ نکلا۔
موریوری کی یہ ٹریجڈی قدیم اور جدید دنیا میں بارہا دہرائی گئی ہے۔ چند صدیاں پہلے یہ ایک ہی تھے۔ دونوں پولیشین تھے۔ ماوری پولینیشن کسانوں کی اولاد تھے جنہوں نے آج سے ایک ہزار سال پہلے نیوزی لینڈ کو اپنا مسکن بنایا تھا۔ یہ نیوزی لینڈ کے مقامی لوگ تھے۔ (بندوقیں انہوں نے یورپیوں سے خریدی تھیں)۔ ماوری میں سے کچھ لوگ نکلے تھے اور چیٹھم جزیرے پر پہنچے تھے۔ یہ موریوری کہلائے۔ ان کے الگ ہونے کے بعد ان کی معاشرت نے مختلف سمت لی۔ شمالی جزیرے کے موریوری نے پیچیدہ معاشرت اور ٹیکنالوجی کی طرف جبکہ موریوری نے الٹی طرف، شکار اور خوراک اکٹھی کرنے کی معاشرت اپنائی۔ ان الگ لی گئی سمتوں نے طے کر دیا کہ جب یہ تصادم ہوا تو نتیجہ کیا نکلا۔
اگر ہم ان دو جزیروں پر رہنے والے معاشروں کا یہ الگ راستہ لینے کی وجہ سمجھ لیں تو ہم دنیا کی تاریخ کی سمت اور بڑے سوالات کے جواب سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسدان کئی تجربات چوہوں پر کرتے ہیں لیکن تاریخ اور معاشرت کے تجربات اس طریقے سے نہیں کئے جا سکتے۔ اس کے لئے ہمیں ماوری اور موریوری کے اس تصادم جیسے قدرتی تجربات کو دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ دونوں جزیرے انسانوں سے خالی رہے۔ یہاں پر کشتی رانی کے ذریعے نہیں پہنچا جا سکتا تھا۔ 1200 قبلِ مسیح میں بسمارک آرکاپلیگیو سے مچھیروں اور کسانوں کی بستی سے نکلے سمندری مہم جو نے ان جزائر کو دریافت کیا۔ اگلی صدیوں میں ان کی اولادوں نے بحرالکاہل پر چھوٹے سے چھوٹے جزیرے پر بھی اپنی آبادیاں بسا لیں۔ آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل تک اکثر جزائر تک پہنچ چکے تھے۔ بچے کھچے جزائر گیارہوں صدی تک بسائے جا چکے تھے۔
ایک ہی آبادی سے نکلنے والی مختلف شاخیں ایک ہی کلچر، زبان، ٹیکنالوجی، فصلیں اور جانور رکھتے تھے۔ اس لئے اس علاقے کو ایک قدرتی تجربہ گاہ کہا جا سکتا ہے جہاں پر انسانی معاشرت کو سٹڈی کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چیتھم جزیرے اور نیوزی لینڈ کا ماحول مختلف تھا۔ جو لوگ یہاں پہنچے، انہیں فصلیں اگانا تو آتی ہوں گی لیکن ٹراپیکل فصلیں چیتھم کی سردی میں اگ نہیں سکتی تھیں۔ ان کے پاس زراعت ترک کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ چونکہ یہ زراعت کے ذریعے اضافی خوراک پیدا نہیں کر سکے جس کو ذخیرہ کیا جا سکے اور تقسیم کیا جا سکے تو کئی پیشے یہاں پر نہیں بن سکے۔ سپیشلسٹ، استاد، فوج، بیوروکریسی، سیاستدان یہاں نہیں آ سکے۔ یہ سمندری جانوروں، پرندوں اور مچھلیوں کا شکار کرتے تھے۔جن کو ہاتھ سے پکڑ سکیں یا ڈنڈے کے ذریعے اور زیادہ ٹیکنالوجی کی ضرورت نہ ہو۔ چیتھم کا علاقہ بھی زیادہ نہیں تھا اور کئی چھوٹے جزائر ساتھ ساتھ پھیلے ہوئے تھے۔ یہاں کی زمین ایسا طرزِ معاشرت رکھنے والی زیادہ آبادی کو سپورٹ نہیں کر سکتی تھی (قدیم طرزِ معاشرت رکھنے والوں کو زمین بہت زیادہ درکار ہے، یہ گنجان آباد نہیں ہو سکتی)۔ اس کی آبادی دو ہزار کے قریب تھی۔ یہ کہیں اور جا نہیں سکتے تھے۔ آپس میں صلح صفائی سے رہنا سیکھ لیا تھا۔ جنگ کی عادت ترک کر دی تھی۔ آبادی کی تعداد قابو میں رکھنے کے لئے کچھ طریقے تھے جس پر عمل کرتے تھے (ان کو آج کی دنیا میں انتہائی بے رحمانہ کہا جائے گا)۔ نتیجے میں چھوٹی، جنگ نہ کرنے والی، سادہ اطوار والی اور بغیر کسی لیڈرشپ اور تنظیم کے معاشرت وجود میں آئی۔
جبکہ دوسری طرف نیوزی لینڈ میں پولیشین آبادی کا بڑا گروپ ایس زمین پر بستا تھا جو زراعت کے لئے موافق تھی۔ ان کی آبادی ایک لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ گنجان آبادی ہونے کے ساتھ ساتھ آپس میں ہمسائیوں کی خونی جنگیں شروع ہوئی تھیں۔ زراعت کی وجہ سے اضافی خوراک کی دستیابی سے جزوقتی فوجی، ہنرمند اور سیاستدان وجود میں آئے۔ انہوں نے اوزار بنائے جن سے فصلیں اگائیں، لڑائی کیں، آرٹ تخلیق کیا۔ رسومات بنیں، آرائشی عمارات بنیں، قلعے بنائے گئے۔
ماوری اور موریوری ایک ہی اجداد سے نکلے تھے لیکن ان کی معاشرت کی راہیں الگ ہو گئی تھیں۔ وقت نے ایک دوسرے کے موجودگی کی خبر بھی ختم کر دی تھی۔ کئی صدیوں تک ان کا رابطہ نہیں ہوا تھا۔ شاید پانچ سو سال یہ ایک دوسرے سے بے خبر رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسٹریلیا سے سیل کا شکار کرنے والے ایک بحری جہاز نے چیتھم جزائر کو دریافت کیا۔ خبر نیوزی لینڈ تک پہنچی کہ ایسے جزائر ہیں جہاں پر سمندر مچھلیوں سے بھرا ہے، جھیلیوں میں بڑی ایل ہیں۔ کاراکا کے پھل سے جھاڑیاں لدی ہوئی ہیں۔ لوگ تو وہاں بہت رہتے ہیں لیکن ان کے پاس ہتھیار نہیں۔ یہ خبر ماوری کے لئے کافی تھی کہ وہ ان جزائر پر جا کر قابض ہو جائیں۔ ماحول کس قدر جلد اکانومی، ٹیکنالوجی، سیاسی تنظیم اور لڑنے کی صلاحیت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہ قدرتی تجربہ اس کی ایک مثال تھا۔ موریوری کی قسمت اس فرق نے طے کر دی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخِ اقوامِ عام میں عام طور پر ایشیا اور یورپ کی تاریخ پڑھی جاتی ہے لیکن انسانی تاریخ صرف انہی علاقوں تک محدود نہیں۔ تاریخ کے پیٹرن ہر جگہ پر ایک ہی طرح کے رہے ہیں۔ وسطی اور جنوبی بحرالکاہل کے جزائر پر بکھری پولینیشیا کی تہذیبیں رہی ہیں، جن کی اپنے واقعات، ایجادات، مہارتیں اور کارنامے رہے۔
پولینیشیا کے بے شمار جزائر پر بسنے والے لوگ قدیم دنیا کے ماہر ترین ملاح تھے۔ یہاں پر ٹونگا کی سلطنت بنی، ہوائی کی سیاسی اکائی۔ نیوزی لینڈ کے ماوریوں نے جیڈ کا خاص استعمال کیا۔ ایسٹر آئی لینڈ پر پتھروں کے حیرت انگیز مجسمے، ٹونگا کے چیف کے شاندار مقبرے، مارکیساس کے تقریبی پلیٹ فارم، ہوائی اور سوسائیٹیز کی عبادت گاہیں۔ یہ آرکیٹیکچر بھی مصر، میسوپوٹیمیا، میکسیکو یا پیرو کی طرف کا سفر کر رہا تھا۔ ان کے پاس مصری فراعین جتنی افرادی قوت نہیں تھی لیکن محض سات ہزار آبادی کی طرف سے تیس ٹن وزنی مجسموں کا محض اپنے زورِ بازو کی مدد سے بنائے جانا بڑا کارنامہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ صرف تین ہزار سال میں ہوا۔ اگر ان کو چند ہزار سال مزید مل جاتے تو شاید ٹونگا اور ہوائی ایک دوسرے سے جنگ کرتے اور قبضے کی خاطر نبردآزما عظیم سلطنتیں بن سکتیں۔ ماوری تانبے اور لوہے کے اوزار بنا سکتے لیکن پولینیشیا کے جزائر میں زمین کے چھوٹے رقبے پر چھوٹے جزائر کی تاریخ، ویسی ہی ہے جیسے کسی بھی اور جگہ کی انسانی تاریخ۔ ایجادات، اختراعات، سیاسی نظام، جنگ و جدل، الگ کلچر اور روایات، تہذیبوں کے اتار چڑھاوٗ، قتل و غارت، ہنرمندی، کاریگری، سیاسی داوٗپیچ، مہم جوئی۔ ویسے ہی جیسے دنیا میں بڑے براعظموں کی تاریخ رہی ہے، ویسے ہی ان چھوٹے جزائر پر۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں