باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 28 فروری، 2020

آنے والے وقتوں کے تین پراجیکٹ ۔ جین (32)


“ذرا دکھاوٗ تو سہی کہ تُم نغمے کے سُر  کیسے تقسیم کرو گے؟
اس سے پہلے یہ دکھانا پڑے گا کہ تم اس میں تمیز کر سکتے ہو
کہ کیا تقسیم کیا جا سکتا ہے اور کیا نہیں”
۔ایک کلاسیکل سنسکرت نظم سے ماخوذ

انسانی جینیات کے آگے تین بڑے پراجیکٹ ہیں۔ تینوں کا تعلق تفریق کرنے، تقسیم کرنے اور پھر دوبارہ تعمیر کر دینے سے ہے۔

پہلا پراجیکٹ انسانی جینوم میں سے ٹھیک انفارمیشن معلوم کرنا ہے۔ اس کے لئے نقطہ آغاز ہیومن جینوم پراجیکٹ تھا۔ اس نے بڑے دلچسپ سوال پیدا کئے کہ آخر تین ارب نیوکلئیوٹائیڈ کیا کوڈ کرتے ہیں۔ اس میں سے فنکشنل عناصر کونسے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس میں پروٹین بنانے والے جین ہیں جو اکیس سے چوبیس ہزار کے درمیان ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ اس مین ریگولیٹری جینز کا سیکونس بھی ہے۔ اور ڈی این اے کے لمبے حصے (انٹرون) ہیں جو جینز کو ماڈیول میں تقسیم کرتے ہیں۔ اس میں دسیوں ہزار آر این اے مالیکیول بنانے کی انفارمیشن ہے جو پروٹین نہیں بناتے لیکن یوں لگتا ہے کہ خلیاتی فزیولوجی میں کئی طرح کا کردار ادا کرتے ہوں گے۔ “جنک” کہلائے جانے والے ڈی این اے کی لمبی شاہراہیں ہیں۔ اور اس کا امکان نہیں لگتا کہ یہ آخر میں جنک ہی نکلے گا اور ممکن ہے کہ سینکڑوں ایسے فنکشنز کا کوڈ رکھتا ہو جو ابھی ہمیں معلوم نہیں۔ ایسے بل اور تہیں ہیں جو کروموزوم کے ایک حصے کی ایسوسی ایشن دوسرے سے تھری ڈائمنشنل سپیس میں بناتی ہیں۔ کیا ان کا بھی مطلب ہے اور اگر ہے تو کیا؟ یہ بھی نامعلوم ہے۔

ان میں سے ہر عنصر کا کردار جاننے کے لئے ایک بین الاقوامی اشتراک سے ایک بڑا پراجیکٹ (ڈی این اے کا انسائیکلوپیڈیا) 2013 میں شروع کیا گیا۔ اس سے ہمیں امید ہے کہ جینوم کے بارے میں ہم بہتر جان سکیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت انسانی جینوم کے بارے میں ہماری معلومات بہت کم ہے اور بہت کم جینز کو براہِ راست سٹڈی کیا گیا ہے۔

میڈیکل جینیات میں اس پراجیکٹ کے اہم فوائد نکل سکتے ہیں۔ فنکشنل طور پر جینوم کو جان لینے کا مطلب بیماریاں دور کرنے میں اچھوتے طریقوں کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ نئے جینومک ایلیمنٹ ڈھونڈ لئے جائیں گے اور پیچیدہ بیماریوں کی شناخت کرنا ممکن ہو جائے گا۔ مثلا، ہمیں ابھی تک معلوم نہیں کہ بلند فشارِ خون، ڈیپریشن، شیزوفرینیا، موٹانے، کینسر یا دل کی بیماری میں جینیاتی انفامیشن، طرزِ زندگی اور امکان کا کہاں پر کیسے ہاتھ ہے۔ جینوم میں سے اس کی ٹھیک شناخت ان بیماریوں کو حل کرنے کی طرف پہلا قدم ہو گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرا یہ کہ جڑواں کی سٹڈیز ہمیں صاف صاف بتاتی ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جینز کا “تمام” انسانی خاصیتوں میں کردار ہے۔ میڈیکل، ذہنی، رویوں کے بارے میں لیکن ان کو جین سے ڈھونڈنا توقع سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہوا ہے۔ ایسی جینیاتی تبدیلیاں جو شخص پر طاقتور اثرات مرتب کرتی ہیں، ان کو تو جان لینا آسان ہے لیکن جب جین ملکر اور کئی ویری ایشنز کے کمبی نیشن کی وجہ سے کوئی اثر مرتب کریں تو اس کا پتا لگانا ناممکن رہا تھا۔

لیکن یہ رکاوٹ بھی شاید جلد دور ہو جائے۔ ایک سوچ کا تجربہ کریں جو پہلی نظر میں دور کی کوڑی لگے۔ فرض کیجئے کہ ہم ایک لاکھ بچوں کا جینوم لیتے ہیں۔ اور ان کے جینوم کی ڈیٹابیس بناتے ہیں۔ اس کے بعد تصور کریں کہ ہم ان بچوں کی “قسمت کا نقشہ” بنا لیتے ہیں۔ ہر بیماری، نارمل سے ہٹ کر کر نفسیاتی رویہ اور ان کو ایک الگ ڈیٹابیس میں ریکارڈ کرتے جاتے ہیں۔ یہ انسانی “فینوم” کا نقشہ ہو گا۔ اب تصور کریں کہ ہمارے پاس ایک کمپیوٹیشنل انجن ان ایک لاکھ جینوم اور فینوم کو میپ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اب بِگ ڈیٹا انالیسس کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے ہم جینوم میں لکھی انسانی فطرت کا کوڈ دیکھنا شروع کر دیں گی۔

قسمت کے اس غیرمعمولی نقشے کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کو صرف بیماریوں تک محدود رہنے کی ضرورت نہیں۔ یہ اتنا وسیع اور گہرا ہو سکتا ہے جتنا ہم اسے بنانا چاہیں۔ پیدائش کے وقت وزن، نرسری سکول میں پرفارمنس، بلوغت کے وقت باغی پن، بانجھ پن، ادھیڑ عمر کا بحران، ڈیپریشن، آنکھ کا موتیا، منشیات کا استعمال، دل کا دورہ، کم عمری میں کینسر،، گنجا ہو جانا۔۔۔۔

کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی کی طاقت، ڈیٹا سٹوریج اور جین سیکونسنگ میں ہونے والی تیزرفتار ترقی کی وجہ سے مستقبل میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ جینوم میں زندگی کے واقعات کے نوٹ ڈالے جا سکتے ہیں۔

یہ یاد رکھنا اہم ہے کہ اس طرح کے پراجیکٹ خود کیا کچھ نہیں بتا سکیں گے۔ بیماری اور قسمت کے بارے میں پیشگوئی میں کیا نہیں کر سکیں گے۔ ماحول کے اثرات نہیں ہوں گے۔ میڈیکل مداخلت کے اثرات نہیں ہوں گے۔ لیکن اس طرح کی سٹڈی کی سب سے بڑی طاقت یہی تو ہو گی کہ یہ بیماری کو باقی تمام فیکٹرز سے الگ کر دیں گے۔ قسمت اور ڈویلپمنٹ کا فرق بتا دیں گی۔ کونسی چیز میں ماحول کا کردار ہے اور کونسے میں نہیں؟ کونسی چیز صرف جین کے ہی قابو میں ہے؟ کس معاملے میں قسمت پیدائش کے وقت طے ہو چکی؟ کس حد تک طے ہو چکی؟ اور کونسی قسمت ابھی طے ہونی ہے؟ کیسے طے ہونی ہے؟ کونسی خود بنانی ہے؟ اصولی طور پر کمپیوٹیشنل پاور اور انسان ملکر جینوم کی پیشگوئی کی پوری طاقت سمجھ سکتے ہیں۔ ان میں تفریق کر سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسرا پراجیکٹ جین کو بدلنے کا ہے۔ تاریخ میں جین کی ڈلیوری کے طریقے ایفی شنٹ نہیں تھے۔ ضرر رساں تھے اور اپنی مرضی کی تبدیلی انسانی ایمبریو میں ڈالنا ناممکن تھا۔

یہ رکاوٹیں طے کر لی گئی ہیں۔ بڑی حد تک ایکوریسی حاصل کر لی گئی ہے۔ یہاں تک کہ ڈی این اے میں سے ایک حرف کو ہٹا کر اپنے مرضی کا دوسرا حرف لکھا جا سکتا ہے۔ اور باقی تین ارب حروف کو چھیڑے بغیر لکھا جا سکتا ہے۔

سٹیم سیل ٹیکنالوجی، نیوکلئیر ٹرانسفر، ایپی جینیٹک ماڈولیشن اور جین ایڈیٹنگ کے طریقوں کی وجہ سے یہ ممکن ہے کہ انسانی جینوم پر وسیع پیمانے پر تبدیلی کی جا سکے۔ ٹرانس جینک انسان پیدا کئے جا سکیں۔

ایسی ٹیکنالوجیز کی ایفی شنسی اور ایکوریسی کا ہمیں ابھی علم نہیں۔ کیا جین میں ایک جگہ پر تبدیلی سے کسی اور جگہ پر غیرارادی نتائج نکل سکتے ہیں؟ کیا کچھ جینوم میں ایڈیٹنگ آسان ہو گی اور کچھ میں مشکل؟ جین کی لچک کس بنیاد پر ہے؟ نہ ہی ہمیں معلوم ہے کہ اپنی مرضی کی ایک جگہ پر تبدیلی کر دینے سے باقی جینوم کی ریگولیشن تو متاثر نہیں ہو گی؟ اگر جینوم میں بٹرفلائی ایفیکٹ عام ہے تو یہ جین ایڈٹنگ ٹیکنالوجی کے لئے ایک بنیادی رکاوٹ رہے گا۔ ممکن ہے کہ جین کا الگ اور آزاد یونٹ کے طور پر نظر آنا ایک سراب ثابت ہو۔ ممکن ہے کہ یہ ڈسکریٹ یونٹ اس سے زیادہ آپس میں انٹرکنکشن رکھتے ہوں جتنا ہم خیال کرتے ہیں۔

“اس سے پہلے تمہیں دکھانا پڑے گا کہ تم اس میں تفریق کر سکتے ہو کہ کس کو تقسیم کیا جا سکتا ہے اور کس کو نہیں”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(جاری ہے)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں