باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 19 مارچ، 2020

جراثیم دیکھنے میں کیسے لگتے ہیں؟ ۔ مائیکروسکوپی کی تکنیک


ساتھ لگی تصاویر سیلیٹ کی ہیں۔ یہ ایک یوکارئیوٹ جرثومہ ہے۔ خوردبین کے نیچے اس کے روئیں بھی ہلتی نظر آتی ہیں جن کی مدد سے یہ حرکت کرتا ہے۔ لیکن ساتھ تو چار تصاویر لگی ہیں اور چاروں ایک جیسی نہیں۔ دیکھنے میں یہ اصل میں ان میں سے کیسا لگتا ہے؟
 

ہم اس چھوٹی دنیا کی جو بھی تصویر دیکھتے ہیں، اس کا انحصار اس پر ہے کہ اس کو روشن کیسے کیا گیا ہے۔ عدسے میں نظر آنے والی تفصیل، شکل اور رنگوں کا انحصار اس پر ہے۔ روشنی سفر کرتی ہے۔ ذرات اور میٹیرئل کے ساتھ تعاملات کرتی ہے۔ بکھرتی ہے، بدلتی ہے۔ ہم اس کی لہروں کی حرکت نہیں دیکھتے لیکن ہم اپنے گرد دنیا کا جو بھی مشاہدہ کرتے ہیں، اس کا تعلق ان لہروں کی فزیکل خاصیت سے ہے۔ اس کی خاص فریکوئنسی رنگوں کی صورت میں اجاگر ہوتی ہیں۔ لیکن لہروں میں فریکونسی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ اور مائیکروسکوپی سائنس کے کئی شعبوں کو ملا کر روشنی کی خاصیتوں کی مدد سے ہمیں جراثیم کی دنیا کئی زاویوں سے دکھاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم آغاز سادہ طریقے سے کرتے ہیں۔ عام روشنی سے۔ ابتدائی مائیکروسکوپسٹ تیل کے لیمپ اور دھوپ کے استعمال سے مائیکروسکوپ سے دیکھا کرتے تھے۔ یہ ٹیکنالوجی بدل چکی ہے لیکن اس کا سادہ اصول جدید تکنیک میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کو برائٹ فیلڈ مائیکروسکوپی کہتے ہیں۔ جدید مائیکروسکوپ میں لیمپ اس کے اندر ہی لگا ہوتا ہے۔ اس کے نیچے وہ سٹیج ہے جس میں ہمارا سیمپل موجود ہے۔ روشنی ایک کنڈینسر سے ہوتی ہوئی اس سیمپل تک پہنچتی ہے جو اس کو سیمپل پر فوکس رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ روشن پس منظر میں کئی جاندار ہوتے ہیں، جن میں سے کئی اس تیز روشنی کے سبب شفاف ہو جاتے ہیں اور نظر نہیں آتے۔ یہ ویسے ہے جیسے ہم بیڈ روم کو ایک دو ہزار واٹ بلب کی روشنی کی ٹارچ کے ذریعے دیکھ کر بتائیں کہ میرا کمرہ ایسا لگتا ہے۔

برائٹ فیلڈ کا تصور سادہ ہے لیکن اس سادگی میں طاقت ہے اور اس نے پرانے اور نئے سائنسدانوں کو مائیکروسکوپک دنیا کو دیکھنے میں بڑی مدد کی ہے۔ لیکن ہر سائنسی تکنیک کی طرح اس میں بھی کمزوریاں ہیں اور اس کی بڑی کمزوری کونٹراسٹ (contrast) ہے۔ ایسے جاندار جن میں پگمنٹ ہوتے ہیں، وہ تو روشن پس منظر میں آسانی سے نظر آ جاتے ہیں لیکن جہاں ایسا نہیں وہاں پر ان کے جسم کو ان کی باقی دنیا سے جدا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس مشکل سے نمٹنے کے لئے سائنسدان داغ کا طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ ایسے داغ جو کچھ سٹرکچرز کو نمایاں کر سکیں۔ لیکن اس کی کمزوری یہ ہے کہ داغ لگانے کا طریقہ جراثیم کو ہی متاثر کر سکتا ہے۔

ساتھ لگی تصاویر میں سے نیچے اور دائیں طرف والی تصویر برائیٹ فیلڈ مائیکروسکوپی سے لی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برائیٹ فیلڈ مائیکروسکوپی کے چیلنج پر قابو پانے کا ایک اور طریقہ ہے جو ہماری دنیا کی سادہ سی لیکن عجیب خاصیت ہے۔ کسی چیز کو دیکھنے کے لئے براہِ راست اس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ اس تکنیک کو ڈارک فیلڈ مائیکروسکوپی کہا جاتا ہے۔ اس میں سیمپل تاریک بیک گراوٗنڈ پر روشن نظر آتا ہے۔ روشنی سیمپل سے ٹکراتی ہے لیکن آنکھ سے نہیں۔ صرف پھیلنے والی روشنی امیج بناتی ہے جبکہ جو روشنی براہِ راست آ جائے، اس کو فلٹر کر لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی سیمپل نہیں ہو گا تو صرف سیاہ نظر آئے گا۔

ساتھ لگی تصویر میں اوپر دائیں طرف کی تصویر اس طریقے سے لی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک اور طریقہ فیز کونٹراسٹ مائیکروسکوپی کا ہے جو کئی ایسی جگہں پر کام کرتا ہے جہاں برائٹ فیلڈ کام نہیں کرتا۔ یہ روشنی کی ایک خاصیت پر انحصار کرتا ہے جس کا ہم براہِ راست مشاہدہ نہیں کرتے۔ کوئی بھی ایسا آبجیکٹ جو ہم مائیکروسکوپ سے دیکھتے ہیں، ایمپلی چیوڈ آبجیکٹ (amplitude object) کہلاتا ہے۔ کیونکہ جب روشنی اس میں سے گزرتی ہے تو اس کا ایمپلی چیوڈ بدل جاتا ہے جس کو ہم روشنی کی شدت کے فرق سے محسوس کرتے ہیں۔ لیکن نمونوں کی ایک اور کلاس ہے جن کو ہم فیز آبجیکٹ کہتے ہیں۔ جب روشنی ان میں سے گزرتی ہے تو لہریں سست پڑ جاتی ہیں اور فیز میں معمولی سی تبدیلی آتی ہے۔ ہماری آنکھ فیز کی تبدیلی کو محسوس کرنے کا پراسس نہیں کر سکتی۔ یہ وہ وجہ ہے جس کے باعث ہم مائیکروسکوپ میں ایمپلی چیوڈ آبجیکٹ تو دیکھ سکتے تھے لیکن فیز آبجیکٹ نہیں دیکھ پاتے۔ 1930 کی دہائی میں فزسٹ فرٹز زرنیک نے طریقہ دریافت کیا جس سے فیز کی معمولی سے شفٹ کو ایمپلی چیوڈ میں تبدیل کیا جا سکے۔ اس سے ہم فیز آبجیکٹ، جن کو دیکھنا بہت مشکل تھا،  دیکھنے کے قابل ہو گئے۔ اس کے پیچھے بہت سی فزکس ہے لیکن یہ اتنا اہم نتیجہ تھا کہ اس پر زرنیک کو فزکس کا نوبل انعام دیا گیا۔ اس کے استعمال سے ہم کئی چھپے ہوئے مائیکروبیل دوستوں سے واقف ہو گئے۔

ساتھ لگی تصویر میں اوپر بائیں طرف کی تصویر اس طریقے سے لی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روشنی کی ایک اور خاصیت جس کو ہم براہِ راست محسوس نہیں کرتے، پولرائزیشن ہے۔ اس سے مائیکرو کاسموس ویسے جگمگایا جا سکتا ہے جیسے ساتھ لگی نیچے بائیں تصویر میں نظر آ رہا ہے۔ عام روشنی کا برقی فیلڈ ہر قسم کے پلین میں وائبریٹ کرتا ہے۔ اس کو کسی ایک پلین میں وائبریشن تک محدود کیا جا سکتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو ہم اس کو پولرائزڈ روشنی کہتے ہیں۔ ہم پولرائیزڈ اور نان پولرائزڈ روشنی میں فرق محسوس نہیں کر سکتے۔ (پولرائزیشن والی دھوپ کی عینک میں محسوس ہونے والا فرق شدت اور رنگ کا ہے، نہ کہ پولرائزیشن کا)۔ اس خاصیت کی بنیاد پر پولرائیزڈ لائٹ مائیکروسکوپی کی جاتی ہے۔

بہت سے میٹیرئل ایسے ہیں جن میں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ روشنی کس سمت سے ڈالی جا رہی ہے۔ لیکن کچھ میٹیریل ایسے ہیں جہاں پر کچھ خاصیتوں پر فرق اس وجہ سے پڑتا ہے کہ روشنی کہاں سے ان سے ٹکرا رہی ہے۔ ان کو optically anisotropic کہا جاتا ہے۔ ان میں روشنی الگ راستوں میں تقسیم ہو سکتی ہے۔ اس سیمپل پر پولرائیزڈ روشنی ڈال کر اور اس کی مدد سے امیج بنا کر کہ اس آرگنزم کے مختلف حصے کیسے روشنی کے ساتھ انٹر ایکٹ کرتے ہیں، ہم ان کو ایکشن میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس کو ہم جگمگاتے اندرونی کرسٹلز کی شکل میں دیکھتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برائٹ فیلڈ مائیکروسکوپی میں پس منظر روشن ہے۔ تصویر کا تعلق روشنی کی شدت کی تبدیلی سے ہے جس کی وجہ سے ہمیں اس کی شکل نظر آ رہی ہے۔ کچھ تفصیلات کو دیکھنا مشکل ہے۔ ڈارک فیلڈ میں کونٹراسٹ بڑھ گیا ہے، کچھ تفصیلات واضح ہو گئی ہیں۔ کچھ اجزاء اور روئیں نمایاں ہیں۔ ایسا ہی فیز کونٹرانسٹ میں بھی ہے۔ پولرائیزڈ روشنی میں وہ کرسٹل جو پہلے آرگنزم کا حصہ ہی نظر آ رہے تھے، اب الگ روشن حرکت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

مائیکروسکوپی کی صرف یہی چار نہیں، کئی اور تکنیک بھی ہیں جو روشنی کی مختلف خاصیتوں سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ لیکن صرف یہی چار ملکر ہمیں اس ننھی اور آنکھوں سے مخفی دنیا کی خوبصورت تفصیل  بتاتی ہیں۔ ہر طریقہ اپنے اپنے زاویے سے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو اب واپس اپنے سوال کی طرف۔ ان چار تصاویر میں سے سیلیٹ دیکھنے میں اصل میں کیسا لگتا ہے؟ مائیکروکاسموس کیسا ہے؟ ہم جس طرح سے اپنے ارد گرد کی دنیا کو دیکھتے ہیں، یہ ہمارے ذہن کا کرتب ہے۔ اور یہ دنیا تو ہمیں دن کو اور رات کو بھی فرق طریقے سے نظر آتی ہے۔ یہ فرق ہماری آنکھ کی فزیولوجی اور دماغ کے ہیں، نہ کہ معروضی حقیقت کے۔

جب ہم یہ سوال پوچھتے ہیں کہ مائیکروب کی دنیا اصل میں کیسی لگتی ہے تو یہ سوال، کسی حد تک، ہمارے اپنے اندرونی تجربے کو اس دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش ہے جو اس کی پہنچ سے باہر ہے۔ آنکھ اور دماغ کے تال میل میں یہ دنیا موجود نہیں۔ روشنی کے ساتھ کئی طریقوں سے کھیل کر ہم وہ امیج تخلیق کرتے ہیں جس کو دیکھ کر ہم اس دنیا کے بارے میں معلومات جان لیتے ہیں۔ جو تصویریں آپ “دیکھ” رہے ہیں، یہ ایسی ہی بنائی گئی ہیں۔

مائیکروکاسموس ان میں سے کیسا ہے؟ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان میں سے کسی بھی طرح کا نہیں۔ یا پھر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان میں سے سب کی طرح ہیں۔ فرق صرف دیکھنے کے طریقوں کا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں