باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 19 جون، 2020

ذہنی تعصبات

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جوتے کی قیمت 1999 روپے کیوں ہے؟ دو ہزار کیوں نہیں؟ کیا اس سے فرق پڑتا ہے؟ ایک روپے سے فرق تو نہیں پڑنا چاہیے لیکن پڑتا ہے۔ اس کو بائیں طرف والے ہندسے کا تعصب کہتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ذہن پر زیادہ زور پڑنے سے بچنے کے لئے انفارمیشن کو سادہ کرنا چاہتے ہیں۔ بائیں طرف والا ہندسہ ہمیں جلدی سے ایک اندازہ بنا دیتا ہے کہ عدد کتنا بڑا ہے۔ یہ طریقہ بُرا نہیں۔ لیکن چیزیں بیچنے والے اس کو آسانی سے اپنے مقصد کے لئے استعمال کر لیتے ہیں۔ اور جب آپ کو پتا لگ بھی جائے کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے، آپ پھر بھی اپنے اس تعصب سے بچ نہیں پاتے۔ (قیمت طے کرنا اور ڈسپلے کرنا ایک آرٹ ہے، اس کے لئے سائیکلولوجیکل پرائزنگ پر دیکھا جا سکتا ہے)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک اور تعصب ہاتھ کا ہے۔ اگر آپ کو دو چیزوں میں انتخاب کرنا ہو اور دونوں برابر کی ہیں تو زیادہ امکان ہے کہ اگر آپ رائیٹ ہینڈر ہیں تو آپ دائیں ہاتھ کی طرف پڑی چیز کا انتخاب کریں گے اور اگر آپ لیفٹ ہینڈر ہیں تو بائیں طرف والی چیز کا۔

اس طرح کے تجربات ہماری سوچ کے پراسس کا ایک گہرا پہلو سامنے لاتے ہیں۔ اس کو embodied cognition کہا جاتا ہے۔ یعنی کہ ہم دنیا کو فزیکل اصطلاحات کی صورت میں سمجھتے ہیں اور یہ ہماری ایبسٹریکٹ سوچ میں بھی جھلکتا ہے۔ باس ہائیرارکی میں “اوپر” ہے اور ماتحت “نیچے”۔ بات میں “وزن” ہے۔ دلیل “کمزور” ہے۔ آپ حقیقت سے “اندھے” ہیں۔ دوسروں کے شکایات سے “بہرے” ہیں۔ یہ تھیوری “خوبصورت” ہے۔ یہ بہت “بڑا” کام کیا ہے۔  ہم ان چیزوں کو بھی فزیکل خاصیتوں کے ساتھ سوچتے ہیں جن میں کوئی فزیکل عنصر نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور تعصب فریمنگ بائیس ہے۔ “اس آپریشن کو کرنے میں دس فیصد خطرہ ہے کہ آپ زندہ نہ بچیں”۔  “اس آپریشن میں نوے فیصد لوگ بچ جاتے ہیں”۔ ریاضی کے لحاظ سے ان دونوں فقروں میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن ان پر ردِ عمل میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ایسا آپریشن کروانے کو لوگ جلد تیار ہو جاتے ہیں جہاں نوے فیصد لوگ بچ جاتے ہوں، دس فیصد موت کا خطرہ مول لینے والے اس کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں۔  اس کی وجہ ہمارا خطرے سے خوف ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پاس ایک سکہ ہے جس میں کوئی گڑبڑ نہیں۔ میں نے اس کو تین بار اچھالا، تینوں بار “دُم” آئی۔ چوتھی بارے اچھالتے وقت بہت سے لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ اس بار تو “سر” کی باری ہے۔ کسی کے تین بیٹے ہو جائیں تو خیال کیا جاتا ہے کہ چوتھی بار تو بیٹی ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ نہیں، نہیں، نہیں۔ اس بار بھی یہ پچاس فیصد ہے۔ پہلے کیا ہوا؟ اس کا تعلق اس بار سے کسی طرح بھی نہیں ہے۔ اس کو جواری کا مغالطہ کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا اس طرح کا تعصب بنیادی نفسیات کے بارے میں بھی ہے۔ جس گروہ کا حصہ ہوں، اس کی طرف تعصب۔ یہ ہماری جذباتی ضرورت ہے۔ اس کو اِن گروپ بائیس کہا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ بڑا تعصب خود اپنے آپ کے متعلق ہے۔ خود کو ہر موقعے پر شک کا فائدہ دینا۔

اگر کوئی چیز خرید لی ہے، تو اس کی کوالٹی کے بارے میں رائے فیصلہ کرنے کے بعد زیادہ اوپر ہو جائے گی۔ اس کی وجہ اپنے انتخاب کا جواز بتانا ہے۔ اور اگر ہمارے پاس بہت سی چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ۔۔۔ فرض کیجئے کہ کوئی نئی چیز خریدنے کے بارے میں ۔۔۔ اور ہم بڑی سوچ بچار کے بعد ایک کا انتخاب کر لیا۔ اب پتا لگا کہ ان میں سے ہماری پسند کی چیز دستیاب نہیں تو پھر فہرست میں پسند کی دوسری پر جائیں گے؟ نہیں، تیسری پر۔ اس کی وجہ یہ کہ جب پہلی بار انتخاب کیا تھا تو پہلے اور دوسرے کے درمیان فیصلہ آسان کرنے کے لئے دوسری کی کوالٹی کو کمتر کرنے کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ تیسری سے بھی نیچے چلی گئی تھی۔ بے تکی بات؟ ہم ایسے ہی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ ہر کوئی ہماری طرح سوچتا ہے۔ اس کو پروجیکشن بائیس کہا جاتا ہے۔ دوسرا کیسے سوچے گا؟ اس کے لئے ہم اپنا ذہنی خاکہ استعمال کرتے ہیں۔ اگر کوئی چیز مجھے تنگ کر رہی ہے تو یہ مفروضہ بنا لوں گا کہ یہ سب کو بری لگ رہی ہے۔ ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ لوگ دنیا کو ہماری نظر سے ہی دیکھتے ہیں۔

امریکہ میں ایک محفل میں ایک صاحب اس وقت گویا شاک کا شکار ہو گئے جب انہیں پتا لگا کہ میں سیاست میں ری پبلکن پارٹی کی حمایت کرتا ہوں۔ انہیں گُنگ دیکھ کر لطف آیا کیونکہ وہ تصور رکھتے تھے کہ ان کے حلقے میں ہر شخص ڈیموکریٹک پارٹی کا سپورٹر ہو گا۔ ان کے ذہنی تصور میں ری پبلکن پارٹی کے سپورٹر یا تو اصل لوگ نہیں تھے یا کم از کم ایسے نہیں تھے جو اس قسم کی محفل کا حصہ ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بار واقعہ رونما ہونے کے بعد ہم عام طور پر سوچتے ہیں کہ ایسا تو ہونا ہی تھا۔ کسی بھی الیکشن کے بعد “ماہرین” کی رائے کو دیکھ لیں (یا کرکٹ میچ کے بعد تبصرے دیکھ لیں)۔ جیتے کے بعد یہ پنڈت خوشی خوشی وجوہات بتا رہے ہوں گے کہ ایسا کیوں ہوا اور شروع سے ہی ایسا کیوں واضح نظر آ رہا تھا۔ ہارنے والے کا تو کوئی چانس ہی نہیں تھا۔ (ان کی آراء کا موازنہ مقابلے سے پہلے کی رائے سے مت کریں ورنہ آپ کا ماہرین کی پیشگوئیوں پر سے اعتبار اٹھ جائے گا)۔ اس کو ہائنڈ سائٹ بائیس کہا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان تعصبات کی وجہ ذہنی شارٹ کٹ ہیں۔ اور یہ مفید ہیں۔ آپ نے سنا تھا کہ فلاں محلے میں آپ کے دوست کا موبائل فون لوٹ لیا گیا تھا۔ اب آپ اس محلے کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں۔ آپ سے کسی سرکاری دفتر میں کسی نے بدتمیزی کی تھی۔ آپ تصور کرتے ہیں کہ سرکاری دفاتر میں لوگ ایسا کرتے ہیں۔ اس کو ایویلیبیلیٹی بائیس (availability bias) کہا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اگر ڈیٹا کا تجزیہ کیا جائے تو پتا لگے کہ ایسا نہیں۔ وہ جگہ شہر کی باق جگہوں سے زیادہ محفوظ ہے۔ آپ کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا، وہ استثنا تھا۔ لیکن آپ کے پاس وقت نہیں کہ ڈیٹا اکٹھا کر کے یہ تجزیہ کریں۔ فیصلے تو آپ نے لینے ہی ہیں۔ ایسے میں یہ شارٹ کٹ مفید رہتے ہیں۔

اگر آپ دنیا کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کا آغاز خود کو سمجھنے سے ہے اور اس کے لئے ان تعصبات کو سمجھنا ضروری ہے۔ 
اشیاء، الفاظ، خیالات اور جذبات بیچنے والوں کی کامیابی بھی انہی تعصبات کے راستے سے گزرتی ہے۔
یہ چند تعصبات سے تعارف ہے۔ ان کی فہرست آخر میں دئے گئے لنک سے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے لئے ایک سوال۔ گاما ایک شخص ہے۔ چھ فٹ قد، بھاری بھرکم، کسرتی جسم، نوجوان، ہاتھ ملاتے وقت مضبوط گرفت۔  کس کا امکان زیادہ ہے؟ گاما پہوان ہے یا دکاندار؟ اور آپ کے جواب کی وجہ کیا ہے؟

(جاری ہے)

ان کے بارے میں پڑھنے کے لئے بہت اچھی کتاب
The Art of Thinking Clearly: Rolf Double

تعصبات کی فہرست یہاں سے
https://en.wikipedia.org/wiki/List_of_cognitive_biases




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں