باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 20 جون، 2020

گاما، پہلوان یا دکاندار؟


گاما ایک شخص ہے۔ چھ فٹ قد، بھاری بھرکم، کسرتی جسم، نوجوان، ہاتھ ملاتے وقت مضبوط گرفت۔  کس کا امکان زیادہ ہے؟ گاما پہوان ہے یا دکاندار؟ اور آپ کے جواب کی وجہ کیا ہے؟ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا تعصب ہے کہ ہم کسی چیز پر ذہنی لیبل لگاتے وقت اس کیٹگری کا کوئی اہم فیچر دیکھتے ہیں۔ ایسا کرنا غلط تو نہیں لیکن اس میں دو اہم چیزیں رہ جاتی ہیں۔ پہلا بیس ریٹ۔ یعنی اگر اس کیٹگری میں ہونا نایاب ہے تو کسی نئی شے کے اس سے تعلق کا امکان کم ہے۔ دوسرا، اس فیچر کی اہمیت جسے ہم نے استعمال کیا ہے۔

شرلاک ہومز نے اپنے ساتھی واٹسن کو یہ اصول سمجھاتے ہوئے بتایا تھا کہ اگر لندن کی سڑک پر سموں کی ٹاپوں کی آواز سنی جائے تو یہ سوچیں کہ گھوڑا ہے، زیبرا نہیں۔ اگر آپ میڈیکل کالج میں ہیں تو آپ کے اساتذہ نے یہی مثال آپ کو بیماری کی تشخیص کے لئے دی ہو گی۔ جب کوئی طالب علم کسی ایسی علامات سے ایسی بیماری کی تجویز دیتا ہے جو نایاب ہے تو اس کو “زیبرا” کہا جاتا ہے۔ 

مثلاً، ایک مریض کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہے، سر میں درد ہے، پسینہ آ رہا ہے اور بلڈ پریشر زیادہ ہے۔ یہ سب علامات ایک کنڈیشن کی ہیں جس کو فیوکروموسائٹوما کہا جاتا ہے۔ لیکن “فیو” بہت ہی کم ہونے والی بیماریاں ہیں۔ اگر علامات عین وہی ہوں جو فیو والی ہیں تو بھی اس چیز کا امکان بہت زیادہ ہے کہ مریض کو اینگزائیٹی ہے یا تھائیروائیڈ کا مسئلہ ہے یا کوئی بھی دوسرا عارضہ ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے۔ جب ایک ناتجربہ کار طالبعلم representative heuristic استعمال کرتے ہوئے فیو تجویز کرتا ہے تو تجربہ کار استاد مسکراتے ہوئے زیبرا کی کہانی بتاتا ہے۔ اور بیماری کی نایابی کا سمجھاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بیماری تک پہنچنے کے لئے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں تا کہ اعتماد سے ٹھیک شناخت کی جا سکے لیکن تجربہ کار ڈاکٹر لندن کی سڑک پر زیبرا کی توقع نہیں رکھتا۔

بلڈ پریشر اونچا ہونا فیو کی پیشگوئی اس لئے نہیں کرتا کیونکہ اس کے اونچا ہونے کی وجہ صرف یہی نہیں۔ اور اس وقت بیس ریٹ ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ اچھا اندازہ لگانے کے لئے بیس ریٹ کا علم ہونا ضروری ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرض کیجئے کہ بوٹے کو کمپیوٹر کا جنون ہے، تھوڑا سا تنہائی پسند ہے، ہر چیز کو کھول کر دیکھنے کا شوق رکھتا ہے اور تفصیل میں جانا پسند کرتا ہے۔ بوٹا ایک یونیورسٹی میں گیا ہے۔ کیا انجینرنگ میں داخلہ لیا یا بزنس میں؟ شاید آپ کہنا چاہیں کہ انجینئرنگ میں۔ یہ تو درست ہے کہ اس طرح کے لوگ انجینرنگ میں زیادہ جاتے ہیں لیکن اب فرض کیجئے کہ اس یونیورسٹی میں صرف ایک فیصد طلباء انجنیرنگ میں جاتے ہیں جبکہ ننانوے فیصد بزنس میں۔ اگر یہ سٹیریوٹائپ بزنس والے طلباء میں اقلیت میں ہی پائی جاتی ہے تو بھی طلباء کے تناسب کے اس بڑے فرق کا مطلب یہ نکلے گا کہ اس کا امکان زیادہ ہے کہ بوٹا بزنس میں گیا ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی قسم کا ایک اور تعصب یونٹ بائیس ہے۔ زیادہ انفارمیشن کو سادہ کرنے کے لئے پہلی اپروکسیمیشن کے طور پر ہم کسی ایک آدھ چیز سے کسی کو جج کر لیتے ہیں۔ اور اسی فیچر سے باقی سب کا اندازہ لگاتے ہیں۔

اس پر 2009 میں اینڈریو گائیر اور پال روزن نے سٹڈی کی۔ انہوں نے لوگوں سے دوسروں کے وزن کا تخمینہ لگانے کا کہا۔ اس سے پتا لگا کہ لوگ اس اندازے کے لئے کمر کے سائز کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور قد کو نظرانداز کر دیتے ہیں جو اندازوں میں غلطیوں کی بڑی وجہ تھی۔

ٹیکنالوجی کی مارکٹنگ میں اس تعصب کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ کسی وقت میں کمپیوٹر خریدنے میں بہت ہی زیادہ اہمیت پراسسر کے میگاہرٹز کو دی جاتی تھی، گویا کہ یہی عدد سب کچھ بتا دیتا ہے۔ مدربورڈ، میموری، چپ سیٹ وغیرہ جیسی چیزیں عام خریدار کے لئے بہت زیادہ تفصیل تھی اور وہ چپ سیٹ کے اس عدد تک محدود رہتا تھا۔

ڈیجیٹل کیمرہ میں یہ عدد میگاپکسل رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ریزولیوشن اصل میں بہت کم اہمیت رکھتی ہے۔ لینز کی کوالٹی اس سے زیادہ اہم ہے۔ اگر آپ ٹیکنالوجی کے ماہر ہیں تو یقیناً ان سادہ کی گئی مثالوں کے بارے میں اپنی رائے دینا چاہ رہے ہوں۔ آپ کی بات درست ہے لیکن اصل پوائنٹ یہ ہے کہ زیادہ تر ہم پیچیدہ انفارمیشن کو ایک آدھ عدد تک لا کر اس سے کسی چیز کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گاما ایک شخص ہے۔ چھ فٹ قد، بھاری بھرکم، کسرتی جسم، نوجوان، ہاتھ ملاتے وقت مضبوط گرفت۔  کس کا امکان زیادہ ہے؟ گاما پہوان ہے یا دکاندار؟

فرض کیجئے کہ پہلوانوں میں سے نوے فیصد بھاری بھرکم ہیں اور دکانداروں میں سے صرف پانچ فیصد۔ لیکن اس کا جواب دینے کے لئے اہم ترین انفارمیشن یہ ہے کہ دکاندار کتنے ہیں اور پہلوان کتنے؟ اگر دکانداری کا پیشہ رکھنے والے ایک لاکھ لوگ ہیں اور پہلوانی کا پیشہ رکھنے والے ایک ہزار تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آبادی میں نو سو بھاری بھرکم پہلوان ہیں اور پانچ ہزار بھاری بھرکم دکاندار۔ اس آبادی میں بھاری بھرکم شخص کا پیشہ پہلوانی کے مقابلے میں دکانداری ہونے کا امکان تقریباً ساڑھے پانچ گنا زیادہ ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس پوسٹ کا پچھلا حصہ بھی پڑھ لیں اور اگلی بار جب آپ اشتہار دیکھیں، خبریں دیکھیں، یا دوست سے گپ شپ کریں تو انفارمیشن کے بارے میں میٹاکوگنیشن کے علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کریں۔ کہ انفارمیشن کو پراسس اور تجزیہ کیسے کرنا ہے؟ کونسے تعصبات کہاں استعمال ہو رہے ہیں؟

ان سے واقفیت کی مدد سے آپ اپنی کشتی کا کنٹرول سنبھال سکیں گے تا کہ وقت پڑنے پر انکے بہاوٗ کے خلاف بھی جا سکیں۔

اور ہاں، ابھی ایک کا ذکر تو رہ ہی گیا۔ وہ، جو کہ تعصبات کی دنیا کا بادشاہ ہے۔ اس کا ذکر اگلے حصے میں۔۔۔

تحریر: وہارا امباکر

(جاری ہے)  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں