باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 1 دسمبر، 2020

آئن سٹائن اور اچُھو حلوائی (۴)

دماغ اس دنیا میں کسی خالی تختی کی صورت میں نہیں آتا۔ ایک چوزہ پیدا ہوتا ہے، انڈے سے نکل کر اپنی ننھی منی ٹانگوں پر لڑکھڑاتا ہے، ان پر دوڑتا ہے اور اپنے پیچھے آنے والے کو غچہ دیتا ہے۔ اسے یہ سیکھنے کے لئے مہینوں اور سالوں کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔
انسان کا بچہ بھی اس دنیا میں بہت سی پروگرامنگ لے کر آتا ہے۔ اس میں بولی جذب کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہ بڑے کو زبان باہر نکالتا دیکھ کر اپنی زبان باہر نکالتا ہے۔ اور اسے معمولی نہ سمجھیں۔ اس کارنامے میں دیکھنے کی صلاحیت سے لے کر سمجھنے اور پھر اپنی حرکت کو کنٹرول کرنے تک بہت کچھ ہے۔ آنکھ کے ریشوں کو یہ “سیکھنے” کی ضرورت نہیں کہ کس طرح بیرونی دنیا کو دماغ کے کس گہرے حصے تک بھیجنے کی ضرورت ہے۔ یہ مالیکیولر سراغوں کی راہنمائی مدد سے اپنے گول تک بالکل ٹھیک ٹھیک پہنچتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہارڈوائیرڈ ہے اور اس کے لئے ہم اپنے جینز کا شکرگزار ہو سکتے ہیں۔
لیکن جینیاتی راہنمائی جانداروں کے لئے مکمل کہانی نہیں، خاص طور پر انسان کے لئے۔ سسٹم کی تنظیم کے لئے جینز ناکافی ہیں۔
محققین کو 1960 کی دہائی میں اندازہ ہونا شروع ہوا تھا کہ دماغ اپنی شکل تبدیل کر سکتا ہے۔ اس کا سادہ ترین تجربہ یہ تھا کہ کچھ چوہوں کو ایسے ماحول میں بڑھایا گیا جس میں طرح طرح کے کھلونے، پہیے اور نئے تجربات تھے، جب کہ کچھ چوہوں کو تنہا اور خالی پنجرے میں۔ نکلنے والے فرق حیران کن تھے۔ ان کے دماغ کا سٹرکچر واضح طور پر مختلف تھا۔ یہ سیکھ کتنا سکتے ہیں۔ یادداشت کیسی رکھ سکتے ہیں۔ ان میں بہت فرق تھا۔ ان کے مرنے کے بعد کئے گئے آپریشن میں اچھے ماحول میں رہنے والوں کے نیوروزن کے ان کے درخت جیسے لمبے اور شاخوں بھرے سٹرکچر والے تھے۔ جبکہ خالی ماحول میں رہنے والوں کے نیورون سکڑ چکے تھے۔ یہ فرق غیرمعمولی تھا۔ یہی تجربہ پرندوں، گدھوں اور دوسرے ممالیہ پر بھی ویسے ہی نتائج دیتا تھا۔ دماغ کے لئے جاندار کے زندگی اہم ہے۔
لیکن کیا یہ انسانوں میں بھی ہوتا ہے؟ 1990 کی دہائی میں کئے گئے تجربات میں مرنے کے بعد کئے گئے تجزیے میں یہ موازنہ کیا گیا۔ وہ لوگ جنہوں نے سکول مکمل نہیں کیا تھا، کا موازنہ ان سے کیا گیا جنہوں نے کالج مکمل کیا تھا۔ زبان و بیان کے علاقے کا فرق صاف چغلی کھاتا تھا کہ کس نے کالج مکمل کیا ہے۔
ہمارا ماحول دماغ کے فائن سٹرکچر پر نقش ہے۔ صرف ڈینڈرائٹس پر نہیں۔ دماغ کی ہر قابلِ پیمائش تفصیل پر۔ مالیکولر سکیل سے لے کر دماغ کی پوری اناٹومی تک۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئن سٹائن آخر آئن سٹائن کیوں تھے؟ ظاہر ہے کہ ان کی صلاحیتوں میں جینیات کی اہمیت ہے لیکن وہ آج تاریخ کی کتابوں کا حصہ کیوں ہیں؟ ان پر گزرے ہوئے ہر واقعے کا اس میں حصہ تھا۔ ان کے کالج کے فزکس کے ٹیچر کا۔ محبت میں مسترد کئے جانے کا۔ پیٹنٹ کے دفتر کا جہاں وہ کام کرتے تھے۔ جب انہوں نے ریاضی کے پرابلم حل کئے تھے تو اس پر ملنے والی حوصلہ افزائی کا۔ جو کہانیاں انہوں نے پڑھیں اور لاکھوں دوسرے گزرنے تجربات کا۔ ان سب نے ملکر ان کے نروس سسٹم کو شکل دی جس سے وہ بائیولوجیکل مشینری بنی جسے ہم آئن سٹائن کہتے ہیں جس نے وہ کارنامے سرانجام دئے جو تاریخ کی کتابوں کا حصہ ہیں۔ ہر سال ہزاروں بچے پیدا ہوتے ہیں جن میں بھی شاید وہی پوٹینشل ہوتا ہے لیکن وہ ایسے کلچر، ایسے معاشی حالات یا ایسی فیملی کا حصہ ہیں جن کی وجہ سے وہ کسی بھی کتاب کا حصہ نہیں بن پائیں گے۔
اگر ڈی این اے واحد شے ہوتا تو پھر تربیت یا اچھے سوشل پروگرام بے فائدہ تھے جو بچوں میں اچھی زندگی انڈیلتے ہیں اور انہیں ذہنی ضرر سے بچاتے ہیں۔ دماغ کو نشوونما پانے کے لئے ٹھیک ماحول کی ضرورت ہے۔
جب انسانی جینوم کا پراجیکٹ اکیسویں صدی کے آغاز پر پایہ تکمیل تک پہنچا تو ایک بڑی سرپرائز یہ تھی کہ انسان میں صرف بیس ہزار کے قریب جینز ہیں۔ بائیولوجسٹ جو توقع کر رہے تھے، یہ عدد اس سے بہت کم تھا۔ خیال تھا کہ انسان کے جسم اور دماغ کی پیچیدگی کو دیکھتے ہوئے اس کے بنانے کی ترکیب کے لئے بہت سا مواد درکار ہو گا۔
لیکن چھوٹی ترکیب سے بڑی کتاب کا حربہ اس ہوشیار حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے کہ نامکمل تعمیر کر کے زندگی کے تجربوں کو اس میں رنگ بھرنے کی صلاحیت دی جائے۔
اس کی مثال سمجھنے کے لئے ہم اپنا سونے جاگنے کا سائیکل دیکھ لیتے ہیں جو سرکیڈین ردھم ہے۔ یہ تقریباً چوبیس گھنٹے کا سائیکل ہے۔ لیکن اگر آپ کسی تاریک غار میں چلے جائیں جہاں دن اور رات کا کوئی اتا پتا نہ ہو تو یہ اکیس سے ستائیس گھنٹوں کے درمیان ہو جائے گا۔ یہاں سے ہمیں دماغ کے سادہ حل کی ترکیب سمجھ میں آتی ہے۔ ایک کلاک کی تعمیر تو جینیات سے ہو گئی لیکن سورج کا سائیکل اس کو ٹھیک ٹھیک چوبیس گھنٹے پر رکھتا ہے۔ اس ہوشیار کرتب کی وجہ سے جینیات کو پرفیکٹ کلاک بنانے کی ضرورت نہیں۔ اس میں چابی گردشِ لیل و نہار سے بھری جاتی رہتی ہے۔
اور یہ وہ لچک ہے جس کے باعث زندگی کے واقعات براہِ راست نیورل فیبرک پر سیے جاتے رہتے ہیں۔ یہ وہ زبردست حربہ ہے جس وجہ سے زبان سیکھنا، سائیکل چلانا، حلوہ بنانا اور کوانٹم فزکس سمجھ لینا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔  (یا شاید کوانٹم فزکس میں دایاں ہاتھ بھی استعمال کرنا پڑ جاتا ہے)۔ یہ سب صلاحیت تھوڑی سی جینز سے بوئے گئے بیج سے پھوٹتی ہے۔ ڈی این اے قسمت نہیں ہے، کسی فرد کے لئے زندگی کے ڈرامے کا صرف ابتدائی ایکٹ ہے۔
اور ظاہر ہے، یہ اس کے سوا کسی بھی اور طرح سے نہیں ہو سکتا تھا۔ آئن سٹائن ہوں یا اچُھو حلوائی، دونوں کی اپنی مہارتیں ہیں۔ دونوں کا معاشرے میں مفید کردار ہے۔ ممکن ہے کہ دونوں کی پیدائشی صلاحیتیں ایک جیسی ہوں لیکن دونوں کی زندگی بہت مختلف ہے۔ دونوں اپنی پوری زندگی کا نتیجہ ہیں۔

 

 




 

3 تبصرے:

  1. Dear Wahara Umbakar
    Greetings.
    May I request you to allow to translate your articles in Sindhi, because vast number of people can not understand science articles written in Urdu.
    Thanking you,
    Dharejo A M
    dharejo@gmail.com

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں