“سائنسی نالج کا ہماری فطری دنیا کی وضاحت میں بہت معمولی اور ناقابلِ ذکر کردار ہے”۔
“سائنس واحد سچائی ہے۔ یہ اندھیرے میں روشن چراغ ہے جسے جہالت کی آندھیاں بجھانا چاہتی ہیں”۔
یہ دونوں متضاد اقوال الگ دانشوروں کے ہیں۔ پہلا ہیری کولنز کا ہے، جو معاشرتی علوم کے ماہر ہیں۔ دوسرا ایک مشہور بائیولوجسٹ کا ہے۔ پہلا مکتبہ فکر “کنسٹرکٹوزم” ہے (سائنس انسانی تخلیق ہے)، جبکہ دوسرا مکتبہ فکر “آبجکٹیوزم” ہے (سائنس معروضی علم ہے)۔
لیکن چونکہ ہمارا ان “سائنس کی جنگوں” سے لینا دینا نہیں، اس لئے ہمارے پاس تیسرا راستہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فطری دنیا کے بارے میں علم حاصل کرنے کے لئے سائنس انتہائی موثر طریقہ اور ایک منفرد اوزار ہے۔ سائنس کے نقادوں کی بہت سی باتوں کی بے وزنی کا اپنی ایویڈنس سائنس کی کامیابی ہے لیکن ساتھ ساتھ طرف، لیکن ان کی معقول تنقید کو نظرانداز بھی نہیں کرتے۔
چونکہ سائنس موثر ہے، منفرد ہے، اہم ہے، ہماری زندگیوں اور معاشرے کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور ہمیں بہت عزیز ہے۔ تو اس لئے اس پر تنقید کرنا زیادہ ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسدان دیوتا نہیں۔ ایسا ضرور ہے کہ چند بار ایسے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں جن کو نرم الفاظ میں اناپسندی کہا جا سکتا ہے۔ مثلاً، فزسسٹ جب “ہر شے کی تھیوری” کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب صرف اور صرف یہ ہوتا ہے کہ ایک خاص مسئلے کے بارے میں ایک خاص ریاضیاتی حل ڈھونڈ رہے ہیں جو قدرتی فورسز کو یکجا کر سکے۔
جب کوئی کاسمولوجسٹ کہتے ہے کہ انہوں نے خدا کا ذہن پڑھ لیا ہے تو اس کا مطلب صرف اور صرف یہ ہوتا ہے کہ کائنات کے دور کے مستقبل کے بارے میں نئی تھیوری پیش کی ہے (یہاں ہم اس کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ انہی کی اپنی ابتدائی پیشگوئی کو ایمپریکل ریسرچ نے بالکل غلط ثابت کر دیا تھا)۔ یا ایک مشہور بائیولوجسٹ، جن کا (غلط) دعویٰ تھا کہ سائنس اس چیز کو رد کر سکتی ہے جس کو انہوں نے “گاڈ ہائپوتھیسس” کہا۔
یہ جس چیز کی چند مثالیں ہیں، اس کو سائٹنزم کہا جاتا ہے اور اسے اچھا لفظ نہیں سمجھا جاتا۔ اس اصطلاح پر زیادہ تفصیل گفتگو پھر آئندہ لیکن یہ اصطلاح کچھ سائنسدانوں کے انٹلکچوئل تکبر کا بتاتی ہے۔ اس کے مطابق، “اگر وقت اور مالی وسائل دئے جائیں تو سائنس کسی بھی سوال کا جواب دے سکتی ہے، خواہ وہ کینسر کا علاج ہو یا اس سوال کا کہ قوانینِ فطرت کہاں سے آئے؟”۔ تاہم، سائنٹزم ایسی پوزیشن نہیں جس کا کوئی معقول شخص دفاع کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس رویے کی کئی جگہ پر جڑ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس میں ہماری کامیابیاں غیرمعمولی ہیں۔ ہم، انسان، بجا طور پر ان پر فخر کر سکتے ہیں۔ بچوں کی کتابیں یا ٹی وی پر دستاویزی فلمیں دیکھ کر شاید ابتدائی عمر میں سائنس سے امید بہت بڑھ جاتی ہے۔ لیکن بڑی وجہ سائنسدانوں میں اپنے خاص شعبے سے باہر علم سے نہ صرف عدم واقفیت ہے بلکہ اس کو حقارت سے دیکھنا بھی۔ اس کی ایک مثال کے لئے مشہور بائیولوجسٹ کا آرگومنٹ ہے جو وہ “گاڈ ہائپوتھیسس” میں دیتے ہیں۔ (یہ argument from improbability ہے)۔ اور یہ افسوسناک ہے کہ ایک بہت ذہین شخص یہ سمجھنے میں بھی ناکام رہتا ہے کہ ان کے آرگومنٹ کو نہ ہی سائنس کی حمایت حاصل ہے (اگرچہ سائنس سے شواہد استعمال کئے گئے ہیں) اور نہ ہی فلسفے کی۔ شاید، اس کی وجہ ان کی فلسفے سے لاعلمی ہے۔ نکالے گئے نتیجے سے قطع نظر، وہ لاعلمی کی وجہ سے سائنس کو اس جگہ پر استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں سے اس کا تعلق بنانا بھی ممکن نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سائنسی رویے کی بنیاد فلسفے کی جس تھیوری پر ہے، وہ correspondence theory of truth ہے۔ نظریہ علم میں ہم اس سے بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ لیکن کئی سائنسدان ایسے ہیں جن کو اس سے آگاہی نہیں۔
نظریہ علم میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہم علم تک کیسے پہنچتے ہیں۔ فلسفے میں افلاطون کے وقت سے، علم کو “justified true belief” تصور کیا جاتا ہے۔
اس کا مطلب کیا ہے؟
(جاری ہے)
Post Top Ad
Your Ad Spot
منگل، 26 جنوری، 2021
تنقید (۱۶)
Tags
Philosophy of Science#
Share This
About Wahara Umbakar
Philosophy of Science
لیبلز:
Philosophy of Science
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں