باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 24 جولائی، 2021

کپاس (17) ۔ صنعتی ایجادات


سب سے پہلی اہم ایجاد جان کے نے 1733 میں کی جو flying shuttle کی تھی۔ یہ لکڑی کا چھوٹا اوزار تھا جو جہاز کی شکل کا تھا۔ اس میں دھاگہ ایک طرف باندھ کر کھڈی کی دوسری طرف “اُڑا” دیا جاتا تھا اور بنائی آسان ہو جاتی تھی۔ 1745 تک اسے بڑے پیمانے پر اپنا لیا گیا۔
اس چھوٹی لکڑی کے اوزار نے اگلا سلسلہ شروع کیا جس نے کاٹن مینوفیکچرنگ کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کر دیا۔ بُنتی بہتر ہونے کی وجہ سے کاتنے کی رفتار تیز کرنے پر پریشر آیا۔ تاکہ دھاگہ ملتا رہا۔ زیادہ خواتین زیادہ وقت تک گھروں میں چرخے چلا رہی تھیں لیکن کاتنے کے چار گھنٹوں کا کام بننے کے ایک گھنٹے کے کام کے لئے دھاگہ دیتا تھا۔ اس میں بڑا بریک تھرو جیمز ہارگریوز کی ایجاد spinning jenny تھی۔ اس میں ہاتھ سے چلانے والا پہیہ تھا جو کئی تکلوں کو ایک ہی فریم میں چلاتا تھا۔ کاتنے والا اپنے دوسرے ہاتھ سے ایک سلاخ آگے پیچھے کر کے دھاگے کو کھینچتا جاتا تھا اور پھر نلکی پر چڑھاتا جاتا تھا۔ ابتدائی مشین آٹھ دھاگے اکھٹے کات سکتی تھی بعد میں سولہ اور پھر اور زیادہ۔ یہ تیزی سے پھیلی اور کاتنے کی رفتار تین گنا ہو گئی۔ 1786 تک برطانیہ میں ایسی بیس ہزار مشینیں کام کر رہی تھیں۔
اس دوران 1769 میں water frame کی اہم ایجاد رچرڈ آرک رائٹ نے کی۔ یہ وہ مشین تھی جس کو استعمال کر کے گریگ نے پانی سے چلنے والا کارخانہ لگایا تھا۔ اس میں چار رولر تھے جو کپاس کے ریشوں کو کھینچتے تھے اور پھر ایک نلکی گھوم کر انہیں دھاگہ بنا دیتی تھی۔ اس کو مسلسل استعمال کیا جا سکتا تھا۔ یعنی وقفہ دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ سپننگ جینی گھریلو استعمال ہو سکتی تھی۔ اس کے برعکس  واٹر فریم کو توانائی کی ضرورت زیادہ تھی اور یہ ایجاد پیداوار کو گھروں سے نکال کر کارخانوں میں لے گئی۔
اس سے دس سال بعد 1779 میں سیموئل کرومپٹن کا بنایا ہوا mule ان ایجادات میں سے ایک شاہکار تھا۔ اس نے جینی اور واٹر فریم کو ملا دیا تھا۔ یہ لمبی مشین تھی جس میں دو متوازی کیرج تھے۔ ایک طرف کپاس کے ہلکے ٹوسٹ ہوئے ریشے تھے جبکہ دوسری طرف دھاگہ لپٹتا جاتا تھا۔ درمیان میں بہت سے تکلے لگائے جا سکتے تھے۔ اٹھارہویں صدی کے آخر تک دو سو تکلے عام تھے۔ اور یہ عدد اس سے اگلی صدی میں تیرہ سو تک پہنچ گیا۔
یہ مسلسل نہیں چلتا تھا بلکہ پانچ فٹ کے برسٹ میں دھاگہ بنتا تھا جو واٹر فریم کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور نفیس تھا۔ پہلے اسے پانی سے چلایا جاتا تھا جبکہ 1820 کی دہائی کے بعد یہ سٹیم انجن کی طاقت سے چلایا جانے لگا۔
سپننگ کی پیداوار میں اس ایجاد کے بعد پریشر دوبارہ ویونگ پر آ گیا۔ پہلے یہ کام گھروں میں ہوتا تھا۔ نئی مشینوں کی آمد اور دھاگے کی بہتات کی سبب لنکاشائر اور چیشائر کی تاریخ کا یہ سنہرا دور تھا۔ دسیوں ہزار گھریلو صنعتیں کپڑا بنا رہی تھیں۔ اس میں بڑا پیداواری اضافہ power loom کی آمد کے بعد ہوا۔
برطانیہ میں صنعتکار اس مشینی انقلاب کی طاقت سے آگاہ تھے۔اٹھارہویں صدی میں ہندوستان میں spinner کو پچاس ہزار گھنٹے کی محنت لگتی تھی جس میں ایک سو پاونڈ کپاس کاتی جاتی تھی۔ برطانیہ میں سو تکلوں والے میول کی مدد سے 1790 میں یہ کام 1000 گھنٹے میں کر لیا جاتا تھا۔ 1795 میں واٹر فریم کی مدد سے 300 گھنٹوں میں جبکہ رابرٹس کے آٹومیٹک میول کی مدد سے 1825 میں 135 گھنٹوں میں۔ صرف تین دہائیوں میں پیداوری صلاحیت میں 370 گنا اضافہ ہو گیا تھا اور برطانیہ میں لیبر کی لاگت ہندوستان سے بہت کم ہو چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برٹش دھاگے کی قیمت ساتھ ساتھ گرتی گئی اور یہ ہندوستانی دھاگے سے کم آ گئی۔ 1830 میں برطانوی ململ کی قیمت 28 شلنگ فی پیس پر آ چکی تھی جو اس سے پچاس سال پہلے 116 شلنگ تھی۔
اب یہ قیمت اتنی کم ہو چکی تھی کہ نہ صرف باقی عالمی منڈیوں میں بلکہ خود انڈیا میں بھی یہ کپڑا بیچا جا سکتا تھا۔ اور جب میڈ ان انگلینڈ کاٹن کا کپڑا ہندوستانی خریدنے لگے تو یہ دنیا کی کاٹن انڈسٹری کے لئے سگنل تھا کہ یہ صنعتی توازن اب الٹ چکا ہے۔
جن موجدین نے یہ انقلاب برپا کیا تھا، انہوں نے تھیورٹیکل سائنس استعمال نہیں کی تھی بلکہ کئی تعلیم یافتہ بھی نہیں تھے۔ یہ ماہر کاریگر تھے جو چھوٹی ورکشاپوں میں کام کرتے تھے۔ کے امیر خاندان سے تھے۔ کرامٹپن، ہارگریوز، آرک رائٹ مزدور طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان موجدین کے شب و روز مشینوں کے ساتھ بسر ہوتے تھے اور انہوں نے عملی مسائل سادہ طریقے سے حل کئے تھے۔
ان چاروں موجدین کو معاشرے میں خاص عزت نہیں ملی۔ ان کی وجہ سے جن کے روزگار ختم ہوئے تھے، انہیں ان کا قہر دیکھنا پڑا۔ کے اور ہارگریوز کو گھر چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ صرف آرک رائٹ نے اپنی ایجاد سے کچھ کمائی کی۔ باقی کسی نے نہیں۔ لیکن ان کی ایجادات تھیں جو صنعتوں میں اپنا لی گئیں اور انہوں نے صنعتی کیپٹلزم کا دروازہ کھول دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان ایجادات نے نہ صرف پیداوار میں اضافہ کیا بلکہ پروڈکشن کے طریقے بدل دئے۔ انسانی محنت کا طریقہ بدل دیا۔ ان مشینوں زیادہ جگہ درکار ہونے کی وجہ سے صنعت شہر سے باہر نکل گئی۔ فیکٹری ایجاد ہوئی۔ اس سے پہلے تاجر دیہات میں جا کر کاریگر ڈھونڈتے تھے۔ اب کاریگر ان فیکٹریوں میں ملازمت تلاش کرنے آنے لگے۔
اور ایک نئی اچھوتی ایجاد ہوئی۔ یہ کاٹن مِل تھی۔
(جاری ہے)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں