بین اورمان چوبیس سالہ ایتھلیٹ تھے جب فروری 2004 کی صبح انہیں اپنی گردن میں کشمش کے سائز کی گلٹی محسوس ہوئی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ غائب ہو جائے گی لیکن یہ بڑھتی گئی تو وہ ہسپتال گئے۔ بلڈ ٹیسٹ اور ایکسرے، سی ٹی سکین اور مزید ٹیسٹ۔ انہوں نے دکھایا کہ یہ گلٹی ایک بڑے آئس برگ کا اوپر والا حصہ ہے۔ ان کو لمفوما تھا جو کہ لمف کے غدود کا کینسر ہے۔ جو ابھی زیادہ نہیں پھیلا اور سٹیج 2A پر ہے۔ کیموتھراپی کے کورس کے بعد اس کا 85 فیصد امکان ہے کہ وہ صحتیاب ہو جائیں۔
یہ علاج چند ماہ چلے گا اور آسان نہیں ہو گا۔ بال گر جائیں گے، کئی دوسری پیچیدگیاں ہوں گی۔ دفاعی نظام ختم ہو جانے سے جان لیوا انفیکشن بھی ہو سکتی ہے۔ اور کیمو کی وجہ سے مستقبل میں دوسرا کینسر بھی ہو سکتا ہے۔
یہ علاج طویل میراتھن ہو گی۔ اورمان نے علاج کروانے کے لئے اثبات میں سر ہلا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور مریض 76 سالہ سورنسن تھیں۔ دبلی پتلی خاتون جو دو فوج میں رہی تھیں اور دو جنگوں میں حصہ لے چکی تھیں۔ انہیں پیٹ درد اور پیٹ کی خرابی تھی۔ سی ٹی سکین نے لبلبے پر چار سینٹی میٹر کی لٹکتی دم پکڑ لی تھی۔ سرجن نے اس کو نکالنے کی کوشش کی تھی لیکن کینسر باقی رہ گیا تھا۔ اس کی ریڈی ایشن تھراپی کی گئی۔ اور اس کے بعد کیموتھراپی۔ ٹیومر ان سب سے بچ گیا تھا۔ پھر ایک دوسری دوا سے کیموتھراپی کی گئی لیکن ٹیومر، جیسا کہ منہ چڑا رہا ہو، اس سے بچ کر جگر میں جا گھسا۔
سفید لباس میں ملبوس سورنسن اپنے شوہر کے ساتھ آئی تھیں۔ شوہر کا کہنا تھا کہ “یہ کچھ بھی ٹرائی کر سکتی ہے۔ یہ اس سے بہت مضبوط ہے جتنی دکھائی دیتی ہے”۔ لیکن کوشش کرنے کو کچھ رہ ہی نہیں گیا تھا۔
ڈاکٹر اپنے پیروں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ سوال سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بالآخر، مریضہ نے خاموشی توڑی۔ کندھے اچکائے اور ڈاکٹر کو دیکھ کر کہا، “مجھے افسوس ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ ہم خاتمے تک پہنچ چکے ہیں”۔
ڈاکٹروں کے مایوسی سے جھکے سر دیکھ کر مریض کا انہیں دیا گیا دلاسہ ۔۔۔ ایسا شاید پہلی بار نہیں ہوا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکھرجی کے یہ دو الگ مریضوں کی کہانیاں ہیں۔ دو الگ دن اور کینسر کی دو الگ کہانیاں۔ ایک قابلِ علاج اور دوسرا موت کا پروانہ۔ ڈھائی ہزار سال پہلے بقراط کی طرف سے نام دی جانے والی اس بیماری کو جدید اونکولوجی میں بھی ابھی تک ایک ہی نام سے پکارا جاتا ہے۔ اورمان کا لمفوما اور سورنسن کے لبلبے کا کینسر، دونوں ہی خلیوں کی بے قابو بڑھوتری ہیں لیکن اپنی نوعیت، شخصیت اور راستے میں بہت ہی الگ۔ ان دونوں کو ایک ہی نام (کینسر) دینا عجیب لگتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ساٹھ کی دہائی میں اونکولوجی ایک “آفاقی علاج” کی تلاش میں تھی۔ ایسا تصور تھا کہ ہر کینسر کا ایک علاج مل جائے گا۔ اگر ایک کا علاج کر لیا گیا تو دوسرا کا بھی ہو جائے گا۔ اور اس بیماری کی عمارت زمین بوس کر دی جائے گی۔
آخر میں، ہماری زندگیوں کا ایندھن faith ہے۔ یہ ایک فیتھ ہے کہ تحقیق پر کی گئی محنت، صرف کردہ توانائی اور سرمائے سے کچھ دریافت ہو جائے گا۔ ایسے ایک ہتھیار کی دریافت کا مفروضہ کینسر پر تحقیق کو توانائی دینے کے لئے درکار تھا۔ ایک علاج کی دریافت۔ تحقیق کا ایک بیانیہ۔ ایک موذی کا خاتمہ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
یہ امید اور فیتھ درست بنیاد پر نہیں تھا۔ “یہ ایک بیماری نہیں تو کوئی ایک آفاقی علاج نہیں”۔ اس حقیقت تک پہنچنے میں سب سے اہم تجربات پارٹیکل فزکس کے آلے سے کئے گئے تھے۔ لینئیر ایکسلریٹر کو ہسپتال میں لا کر بڑی خوبصورتی سے تجربات ڈیزائن کرنے والے ریڈیولوجی کے پروفیسر ہیری کیپلان تھے۔
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں