کینسر کی ادویات دریافت کرنے کے تین ذرائع تھے۔ ایک سائنسدانوں کے لگائے گئے اندازے، جیسا کہ فاربر نے اندازہ لگایا تھا کہ اینٹی فولییٹ لیوکیمیا کے خلیوں کے بڑھنے کو بلاک کر سکتا ہے اور اس کیلئے ایمینوپٹرین کو استعمال کیا تھا۔ دوسرا اتفاقی دریافتیں، جیسا کہ مسٹرڈ گیس کا خلیات کو مار دینے کے ایکشن سے ایکٹینومائیسین ڈی کی دریافت یا پھر ہزاروں مالیکیولز کو لے کر ایک ایک کر کے ٹیسٹ کر کے اس کا اثر دیکھ کر اس کو چننا۔ سکس ایم پی کو اس طرح دریافت کیا گیا۔
ان سب میں جو مشترک خاصیت تھی، وہ خلیات کے بڑھنے میں رکاوٹ ڈالنے کی تھی۔ اور یہ خاصیت بلاتحصیص تھی۔ نائیٹروجن مسٹرڈ زیادہ تقسیم ہونے والے ہر خلیے کو مار دیتی تھی جس وجہ سے کینسر اس کی لپیٹ میں آ جاتا تھا۔ کینسر کے خلاف آئیڈیل دوا وہ ہوتی جو کینسر کے خلیے کے کسی خاص مالیکیولر حدف پر حملہ آور ہوتی۔ 1960 کی دہائی میں کینسر کی بائیولوجی کا علم بہت ناقص تھا لیکن ونسنٹ ڈی ویٹا یہی کرنا چاہتے تھے۔ اور ان کا خیال تھا کہ کی مدد سے ہر قسم کے کینسر کے علاج تک پہنچا جا سکے گا۔ انہوں نے اس تجربے کے لئے ہوجکن لفموما کے کینسر کا انتخاب کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈی ویٹا 1964 میں چار ادویات کی انتہائی زہریلی کاک ٹیل بنا چکے تھے۔ کینسر انسٹیٹیوٹ میں ان کے تجربے کی مخالفت ہوئی لیکن فرے نے ناقدین کو خاموش کروا لیا۔
ہوجکن کی بیماری مریض کے لئے جلد موت تھی۔ ڈی ویٹا اور کانیلوس نے 43 مریضوں کی رضامندی حاصل کر لی جن پر اس نئی کاک ٹیل کا تجربہ کیا جانا تھا۔ یہ کاک ٹیل موپ (MOPP) تھی۔ مریضوں کی عمر تیرہ سال سے انہتر سال کے درمیان میں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے استعمال کردہ چار زہروں کا کمبی نیشن ویمپ تھا۔ اور ویمپ کی دہشت انفیکشن سے موت کی تھی۔ خون کے سفید خلیات کے ختم ہو جانے سے بیکٹیریا کو آزاد میدان مل جاتا تھا۔ جبکہ موپ کی دہشت متلی کی تھی۔
اس علاج سے ہونے والی متلی خوفناک تھی۔ اچانک ہوتی تھی اور اس قدر شدت سے کہ ذہن مفلوج کر دیتی تھی۔
نئے سائیڈ ایفیکٹ نظر آنے لگے۔ امیون سسٹم تباہ ہو جانے کی وجہ سے عجیب انفیکشنز بن جاتی تھیں۔ ایک مریض میں نایاب قسم کا نمونیا نمودار ہو گیا۔
موپ کیمیوتھراپی کا بڑا سائیڈ ایفیکٹ اگلی دہائی میں معلوم ہوا۔ یہ دوسرے کینسر کے ہو جانے کا تھا، جو زیادہ جارحانہ تھا اور اس کینسر کی وجہ موپ کیموتھراپی تھی۔ موپ دوہری دھار والی تلوار تھی۔ ایک طرف کینسر کاٹ دینے والی اور دوسری طرف کینسر کا موجب بننے والی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ان اثرات کے علاوہ، علاج سودمند رہے۔ کئی نوجوان مریضوں میں پھولے ہوئے لمف نوڈ ہفتوں میں ٹھیک ہو گئے۔ بیماری سے نڈھال ایک بارہ سالہ لڑکے کا وزن گر کر پچاس پاونڈ رہ چکا تھا۔ علاج کے تین مہینے میں یہ وزن دگنا ہو گیا۔ کئی مریضوں میں ہوجکن کی جسم پر گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ مہینے گزرتے گئے اور نظر آنے لگا کہ کمبینیشن کیمو ایک بار پھر کامیابی دکھا رہی تھی۔ چھ ماہ میں 43 میں سے 35 مریض مکمل صحت یاب ہو چکے تھے۔ اس ٹرائل میں کنٹرول گروپ نہیں تھا لیکن موثر ہونے کا طے کرنے کے لئے اس گروپ کی ضرورت نہیں تھی۔ ہوجکن کی ایڈوانسڈ سٹیج پر ایسا نہیں ہوا تھا۔ کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ نصف سے زیادہ مریضوں کا علاج طویل مدت میں کامیابی سے ہو رہا تھا۔
ملٹی ڈرگ تھراپی نے سٹیج تھری اور سٹیج فور کے مریضوں کو قابلِ علاج کر دیا تھا۔ یہ ایک بڑا سنگِ میل اور اہم کامیابی تھی۔
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں