باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 15 ستمبر، 2023

جغرافیہ کے قیدی (22) ۔ امریکہ ۔ سپرپاور


انیسویں صدی میں برٹش نے سیکھا تھا کہ انہیں اپنی طاقت دکھانے اور سیکورٹی کے لئے فارورڈ بیس درکار تھے۔ ایک صدی کے بعد اب برطانیہ زوال کا شکار تھا۔ امریکیوں نے دنیا میں پھیلے ہوئے یہ بیس دیکھے اور کہا، “خوبصورت!! یہ ہم خرید لیتے ہیں”۔
اور یہ اچھی قیمت پر مل گئے۔ 1940 کی خزاں میں برٹش کو جنگی جہاز درکار تھے۔ امریکہ کے پاس پچاس اضافی موجود تھے۔ اور یہاں پر معاہدہ ہوئی جو کہ Destroyers for Bases Agreement تھا۔ ان جنگی جہازوں کے عوض مغربی نصف کرے کے تقریبا تمام برطانوی بیس امریکہ کے سپرد ہو گئے۔
کنکریٹ انڈیلی جانے لگی۔ بندرگاہ، رن وے، طیاروں کے ہینگر، ایندھن کے ڈپو، خشک بندرگاہیں، افواج کی تربیت کے علاقے۔۔۔ مشرق میں جاپان کی شکست کے بعد امریکہ نے بحرالکاہل پر پیر جما لئے۔ گوام سے لے کر ایسٹ چائنہ سمندر مین جاپانی جزیرے اوکیناوا تک۔
امریکیوں نے 1948 سے 1951 تک جاری مارشل پلان میں یورپی تعمیرِنو کی۔ اور یہاں بھی مستقل ڈیرے جما لئے۔ جرمنی میں ان کی افواج سوویت ریڈ آرمی کے مقابل تھیں۔
سن 1949 میں NATO قائم ہوئی۔ اس کا سویلین سربراہ ایک سال بلجیم سے ہوتا ہے تو اگلے سال برطانیہ سے اور اگلے سال اگلے ملک سے۔ لیکن اس کا ملٹری کمانڈر ہمیشہ امریکی ہوتا ہے اور یہ واشنگٹن کو جوابدہ ہوتا ہے۔
یہ وہ سبق تھا جو کہ فرانس اور برطانیہ نے 1956 میں سیکھا جب سویز نہر کا بحران آیا۔ امریکی دباؤ کی وجہ سے انہیں اس نہر کا قبضہ چھوڑ دینا پڑا۔  اور ساتھ ہی مشرقِ وسطٰی میں اپنا اثرورسوخ بھی۔ اس میں پیغام واضح تھا کہ کوئی NATO ملک امریکہ سے پوچھے بغیر اپنی بحری پالیسی نہیں رکھ سکتا۔
آئس لینڈ، ناروے، برطانیہ اور اٹلی کی تمام bases پر امریکہ رسائی اور حقوق رکھتا ہے جس وجہ سے یہ شمالی اوقیانوس، بحرالکاہل کے علاوہ بحیرہ روم پر بھی غلبہ رکھتا ہے۔ 1951 میں یہ مزید پھیل گیا جب آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی اس میں شامل ہو گئے اور پھر کوریا کی 1950 سے 1953 تک ہونے والی جنگ کے بعد اس سے شمال میں بھی۔
ویتنام میں 1960 کی دہائی کی جنگ میں امریکہ کی ناکامی اس کے لئے دھچکا تھی لیکن اس نے عالمی حکمتِ عملی میں تبدیلی نہیں کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تین جگہیں تھیں جہاں سے امریکہ کو چیلنج کیا جا سکتا تھا۔ یورپ، روس اور چین۔ ان میں سے تینوں مضبوط ہو رہے تھے لیکن دو جلد ہی اپنے عروج تک پہنچ کر کمزور پڑنے لگے۔
کئی یورپیوں کا خواب امریکہ کی طرز کی یورپی یونین کا رہا تھا۔ جس کی ایک مشترک دفاعی اور خارجہ پالیسی ہے۔ اس خواب کو تو ہم اپنی آنکھوں کے آگے مرتا دیکھ چکے ہیں۔ اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو یورپی ممالک دفاع پر اتنا کم خرچ کرتے ہیں کہ ان کا انحصار بالآخر امریکہ پر ہی ہے۔ 2008 کے معاشی کریش نے یورپی طاقتوں کی طاقت مزید کمزور کر دی تھی۔
روسی حرف 1991 کے بعد زیر ہو گیا تھا۔ اس کے پیچھے ان کے معاشی اور سماجی تجربے کی خوفناک ناکامی، ملٹری کا بے تحاشا ایڈونچر، اپنی عوام پر مضبوط گرفت ڈھیلی پڑ جانا اور ریاستی فنڈ پر (ٹریکٹر جیسی چیزوں کی) ضرورت سے زیادہ پیداوار تھا۔ حالیہ سالوں میں پیوٹن کا روس امریکہ کے لئے کانٹا تو ہے لیکن اس کی عالمی dominance کے لئے سنجیدہ خطرہ نہیں ہے۔ روس کے جغرافیہ کی قید اسے عالمی سے زیادہ علاقائی طاقت بنا دیا ہے۔ اور اس کے پاس ایسے گرم پانی تک رسائی نہیں جہاں سے عالمی سمندری راستوں تک پہنچا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگی صلاحیت محدود رہ جاتی ہے۔
یوکرین میں 2014 میں ہونے والی حکومتی تبدیلی کے پیچھے امریکی ہاتھ تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ یوکرین کو سوویت اثر سے نکالا جا سکے اور پیوٹن کو کمزور کیا جاے۔ واشنگٹن کو معلوم تھا کہ امریکہ کی افغانستان اور عراق میں ایڈونچر سے فائدہ اٹھا کر روس نے قازقستان میں پیر جما لئے تھے اور جارجیا کی زمین حاصل کر لی تھی۔ روس کو واپس دھکیلنے کا تجربہ یوکرین میں کیا جا سکتا تھا۔ اس میں بڑی کامیابی نہیں ہوئی اور روس نے جنگ کا آپشن استعمال کر لیا۔لیکن روس بنیادی طور پر امریکہ کا نہیں، بلکہ یورپ کا مسئلہ ہے۔
اور یہاں پر باقی چین رہ جاتا ہے۔ اور چین ابھر رہا ہے۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں