باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 19 فروری، 2024

درختوں کی زندگی (24) ۔ تاریک دنیا کے باسی


مٹی میں پائے جانے والے جانوروں اتنے پرکشش اور دلچسپ نہیں ہیں کیونکہ چھوٹے ہونے کی وجہ سے ہماری توجہ نہیں لیتے۔ محدب عدسے سے بھی دکھائی نہیں دیں گے۔ لیکن جنگل میں یہ چھوٹے افراد غذا کی زنجیر کی ابتدائی کڑیوں میں سے ہیں۔ انہیں خشکی کا پلانٹکن سمجھا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ محققین کی بھی زیادہ توجہ نہیں لیتے اور ان کے نام مشکل لاطینی میں رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی ان گنت انواع دریافت ہونے کا انتظار کر رہی ہیں۔
ہم orbited کو دیکھتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا mite ہے جس کی ایک ہزار معلوم انواع یورپ میں پائی جاتی ہیں۔ اس کا سائز 0.04 انچ ہے اور اس کی مشابہت چھوٹی ٹانگوں والی مکڑی سے ہے۔ اس کا جسم دو قسم کا بھورا ہے جو کہ ان کے قدرتی ماحول سے ہم آہنگ ہے۔
ہمارے گھروں میں ڈسٹ مائیٹ موجود ہیں جو کہ ہماری جلد کے گرے ہوئے ذرات اور دوسرے فاضل مادوں کو کو کھاتی ہیں (اور کئی لوگوں کے لئے الرجی کا سبب بھی بنتی ہیں)۔ جنگلات میں بیٹل مائیٹ ایسا کام کرتی ہیں۔ درخت جو چھال اور پتے گراتے ہیں۔ یہ کئی گز گہرا ڈھیر بن جائیں لیکن یہ بھوکی خوردبینی مخلوقات اس پر حملہ کرنے کو تیار ہوتی ہیں۔
کچھ انواع فنگس کے ساتھ یہ کام کرتی ہیں۔ یہ زیرزمین چھوٹی سرنگیں بناتی ہیں اور فنگس کے باریک سفید ریشے سے رس چوستی ہیں۔
اس کے علاوہ بیٹل مائیٹ اس رس کو چوستی ہیں جو کہ درخت اپنے ساتھی فنگس کو دیتے ہیں۔
سڑتی لکڑی ہو یا پھر مردہ گھونگھے۔ کوئی بھی ایسی شے نہیں جس کے حساب سے متعلقہ مائیٹ موجود نہ ہوں۔ یہ پیدائش سے لے کر گلنے سڑنے تک زندگی کے ہر مرحلے میں شامل ہوتی ہیں اور ایکوسسٹم کا لازمی جزو ہیں۔
اس کے علاوہ weevil ہیں۔ یہ ایسے چھوٹے ہاتھی کی طرح ہیں جس کے کام گر گئے ہوں۔ اور ان کی بے تحاشا انواع ہیں۔ صرف یورپ میں ہی اس کی 1400 معلوم انواع پائی جاتی ہیں۔ اپنی لمبی سونڈ کی مدد سے یہ پتوں اور تنوں میں چھوٹے سے سوراخ کر دیتی ہیں جس میں انڈے دیے جاتے ہیں۔ یہاں پر محفوظ ان کا لاروا پودوں کے اندر کے حصے کو چباتے ہیں اور سکون سے رہتے ہیں۔
ویول کے کچھ انواع اڑنا بھول گئی ہیں کیونکہ ان کو جنگل کی سست رفتار زندگی کی عادت ہو گئی ہے۔ ایک سال میں تیس فٹ سے زیادہ سفر ہی نہیں کرتے۔ اور اس سے زیادہ کی ضرورت بھی نہیں۔ ایک ہی درخت کے ساتھ اپنی زندگی گزار دیتے ہیں۔ اگر وہ درخت مر جائے تو انہیں نے صرف اگلے درخت تک جانا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب پرانے جنگل صاف کئے گئے، تو یہ بھی ان جگہوں سے ختم ہو گئے۔ مصنوعی جنگل شجرکاری کے ساتھ لگائے جاتے ہیں تو یہ جاندار وہاں پر نہیں ہوتے۔ کسی جنگل کی عمر جاننے کا ایک آسان طریقہ ہے کہ اس میں زیرِ زمین زندگی کی حالت کو دیکھ لیا جائے۔ جنگل کے ایکوسسٹم کا توازن بنتے بنتے دہائیاں یا لگ جاتی ہیں۔ جب جنگل کی عمر بڑھتی جائے تو یہ جاندار بھی آنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ کیڑا جو چند فٹ سے زیادہ اپنی پوری عمر نہیں حرکت کرتا، دور دراز کی جگہوں میں کیسے پہنچ جاتا ہے؟ لفٹ لے کر۔ پرندے مردہ پتوں میں لوٹنیاں لگاتے ہیں تا کہ پروں کو صاف رکھ سکیں۔ اس دوران اس کے پروں سے ان میں سے کئی چپک جاتے ہیں اور ان کو لے اڑتے ہیں۔ چھوٹے کیڑے، بیکٹیریا، فنگس اپنی اس سواری پر اگلے جنگل تک پہنچ جاتے ہیں۔ جنگل میں موت و حیات کے سائیکل متوازن ہونے میں وقت تو لگاتے ہیں لیکن جب بھی موقع اور وقت دیا جائے، قدرت اپنے آپ کو جلد بحال کر لیتی ہے۔ اپنے وہ چکر بھی، جن کو ہم ٹھیک طرح سے نہیں جانتے۔ گوئتے مالا میں مایا بائیوسفئیر ریزرو، سکاٹ لینڈ میں کالیڈونین جنگل، جرمنی میں لونے برگ ہیتھ، امریکی جنوب مشرق میں پائن کے جنگلات، وہ چند مثالیں ہیں جہاں پر قدیم جنگلات کی واپس بحالی کی کوششیں کامیاب ہو رہی ہیں۔ زندگی بھرپور طریقے سے واپس آ رہی ہے۔ زمین کے اوپر کی روشن دنیا میں بھی اور زمین کے اندر کی تاریک دنیا میں بھی۔
(جاری ہے)








کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں