باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 20 فروری، 2024

درختوں کی زندگی (25) ۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ویکیوم


سادہ تصاویر میں درختوں کو توازن کے نظام کے چکر میں دکھایا جاتا ہے۔ یہ فوٹوسنتھیسس کرتے ہیں۔ اس سے ہائیڈروکاربن پیدا ہوتے ہیں۔ ان سے یہ بڑھتے ہیں۔ اپنی زندگی میں یہ 22 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ اپنے تنے، شاخوں اور جڑوں کے نظام میں قید کر سکتے ہیں۔ اور جب یہ مرتے ہیں تو فنگس اور بیکٹیریا ان کو توڑتے ہیں اور یہ گرین ہاؤس گیس واپس ہوا میں چلی جاتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو لکڑی جلانے کا کوئی ماحولیاتی نقصان نہیں کیونکہ اس سے بھی تو یہی کام ہوتا ہے۔ ٹھیک؟ نہیں۔ جنگل کے کام کرنے کا طریقہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ جنگل کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر لینے کے دیوہیکل ویکیوم کلینر ہیں۔
یہ بات تو درست ہے کہ درخت کے مرنے کے بعد کے پراسس کے نتیجے میں کچھ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوا میں واپس ہو جاتی ہے۔ لیکن زیادہ تر ایکوسسٹم میں ہمیشہ کے لئے قید رہتی ہے۔ شکستہ ہوتے تنے کے چھوٹے اور چھوٹے ٹکڑے ہوتے جاتے ہیں اور یہ زمین میں دھنستے جاتے ہیں۔ بارش نامیاتی باقیات کو مٹی میں لے جاتی ہے۔ زمین کے نیچے موسم سرد ہوتا ہے۔ زندگی سست ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ تقریبا تھم جاتی ہے۔ اور یہاں پر کاربن ڈائی آکسائیڈ اپنی جگہ مٹی کے جزو کے طور پر بنا لیتی ہے۔ وقت گزرتا جاتا ہے اور یہ بڑھتا جاتا ہے۔ مستقبل بعید میں یہ کوئلے کی صورت میں برآمد ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج فوسل فیول کے ذخائر ان درختوں سے آتے ہیں جو تیس کروڑ سال پہلے وفات پا گئے تھے۔ یہ موٹے تنے والے سو فٹ اونچے درخت تھے جو آج کے نباتات سے کچھ مختلف شکل کے تھے۔ دلدلی زمین میں اگنے والے درخت جب عمر رسیدہ ہو کر فوت ہوئے تو ان کے تنے اگلے ہزاروں سال میں سیاہ peat کی تہہ بن گئے۔ ان کے اوپر پتھروں کی تہہ بنتی گئی اور پریشر نے انہیں رفتہ رفتہ کوئلے میں بدل دیا۔ آج بجلی بنانے کے پلانٹ ان قدیم جنگلات کی باقیات کو جلا رہے ہیں۔ کیا یہ خوبصورت نہیں ہو گا کہ اگر آج کے جنگلات کو یہ موقع مل جائے کہ یہ ان باقیات کو ودبارہ پکڑ لیں اور پھر زمین کا حصہ بنا دیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج نیا کوئلہ نہیں بن رہا۔ کیونکہ جنگلات کو کاٹ کر لکڑی کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ لیکن آپ اس عمل کا بالکل ابتدائی مرحلہ جنگل میں سیر کے دوران دیکھ سکتے ہیں۔ اگر مٹی کو کچھ کھودیں تو نوٹ کریں گے کہ اس کی بالائی سطح زیادہ گہرے رنگ کی ہو گی کیونکہ یہاں پر کاربن زیادہ ہے۔
ایک سوال یہ کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ درخت اپنی پسندیدہ خوراک (کاربن ڈائی آکسائیڈ) کو سسٹم سے نکالتے رہتے ہیں؟ اور صرف درخت ہی نہیں بلکہ تمام نباتات ایسا کرتے ہیں۔ حتی کہ سمندر کی الجی بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ نکالنے والا کام کر رہی ہے۔ اور جب یہ نباتات مرتے ہیں تو کاربن کے کمپاونڈ کی صورت میں ان کی باقیات سٹور ہو جاتی ہیں۔
جانداروں کی باقیات پچھلے دسیوں کروڑوں سال میں بے تحاشا کاربن کو ہوا سے نکال چکی ہیں۔ کاربونیفرس دور میں زمین کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ آج کے مقابلے میں نو گنا زیادہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہاں پر ایک اور دلچسپ حقیقت ہے۔ جب محققین نے دنیا کے ہر براعظم کے سات لاکھ درختوں پر تحقیق کی تو عام خیال کے برعکس اس کا حیران کن نتیجہ یہ نکلا کہ جتنا پرانا درخت ہے، وہ اتنی زیادہ تیزی سے بڑھتا ہے۔ ایسے درخت جن کے تنوں کا قطر تین فٹ ہے، وہ اپنے سے نصف قطر کے تنے والے درختوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ رفتار سے بائیوماس اکٹھا کرتے ہیں۔ درختوں کی دنیا میں بوڑھا ہونے کا مطلب لاغر اور کمزور نہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمارے بہترین ساتھی قدیم جنگل ہیں۔   
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں