باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 28 فروری، 2024

درختوں کی زندگی (38) ۔ مہم جو


درختوں کی کچھ انواع ایسی ہیں جنہیں جنگل کے سکون کی پرواہ نہیں۔ اور نہ ہی انہیں سماجی تعلقات بنانے میں دلچسپی ہے۔ یہ اپنی زندگی الگ گزارنا چاہتے ہیں۔ انہیں pioneer tree species کہا جاتا ہے۔ یہ اپنی ماؤں سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے بیج طویل فاصلے تک پرواز کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ بہت چھوٹے بیج جو پروں کے ساتھ اڑتے ہوئے میلوں دور جا سکتے ہیں۔ ان کا مقصد جنگل سے باہر جانا ہے جہاں یہ نئے علاقوں پر قبضہ کر سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی پرانے لینڈ سلائیڈ، آتش زدگی یا لاوے سے جھلسی ہوئی جگہیں ان کے لئے بہترین ہیں جہاں پہلے سے اونچے درخت نہ ہوں۔ انہیں سایہ بالکل پسند نہیں۔ یہ ان کے بڑھنے کی رفتار کم کرتا ہے۔ اور یہ جلدی یمں ہیں۔ ایسے درختوں کی مثالیں کوئیکنگ ایسپن (quaking aspen)، سلور فر (silver fir) یا پسی ولو (pussy willow) ہیں۔ جہاں پر بیچ یا پائن سال میں ایک انچ بڑھتے ہیں، یہ کئی بار تین فٹ سے زیادہ قد بڑھا لیتے ہیں۔ دس سال میں یہ اس  زمین کو بدل کر نوجوان جنگل بنا چکے ہوتے ہیں اور اپنی الگ نسل کے لئے بیج آگے روانہ کر چکے ہوتے ہیں کہ یہ نئی دنیائیں فتح کریں اور زمین کو اپنے سبزے سے بھر دیں۔
لیکن یہ کھلی جگہیں چرندوں کے لئے بھی پرکشش ہیں۔ گھاس اور جنگلی پھولوں کے لئے بھی۔ جنگل میں یہ نہیں اگ پاتے۔ چرندے ان پودوں کو چرنے پہنچ جاتے ہیں۔ گھاس مسلسل چرے جانے سے ایڈاپٹ کر چکی ہے اور مطمئن ہے کہ اس کا مقابلہ کرنے والے نوجوان پودوں کا بھی صفایا ہو رہا ہے۔ چرنے کے خطرے کے خلاف کئی جھاڑیوں نے کانٹے اگا لئے ہیں۔
مہم جو درختوں کا اپنا طریقہ ہے۔ جلد بڑھنا اور اپنے تنے کو موٹا کر لینا جس میں موٹی چھال کی تہیں ہوں۔ چرندے اس سخت چھال میں اپنا دانت توڑ بیٹھتے ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ کڑوے تیل کے ریشے بھی اگا لیتے ہیں۔
سلور برچ کے پاس ایک اور حربہ ہے۔ اس کا سفید رنگ جس جزو کی وجہ سے ہے، یہ بیٹولین ہے۔ یہ درخت سے روشنی منعکس کر کے دھوپ سے جلائے جانے سے بچاتا ہے۔ چونکہ یہ درخت بغیر سایے والی جگہ پر اگتا ہے، تو یہ اس کیلئے اہم ہے۔ بٹولین وائرس اور بیکٹریا کو بھی مارتی ہے اور کئی ادویات اور جلد کی حفاظت کی مصنوعات میں استعمال کی جاتی ہے۔
یہ حیران کن ہے کہ چھال میں کس قدر زیادہ بٹولین پائی جاتی ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ درخت مسلسل چوکس ہے۔ یہ دفاعی حصار مسلسل بنایا جا رہا ہے۔
درختوں کی تمام انواع ایسا کیوں نہیں کرتیں؟ کیا یہ مفید نہیں کہ حملے کے خلاف دفاع کے لئے اچھی تیاری رکھی جائے؟ ایسی انواع جو سماجی گروہوں میں رہتی ہیں، وہ مصیبت کے وقت میں اپنی کمیونٹی سے مدد حاصل کر سکتی ہیں۔ انہیں پہلے سے الارم مل جاتا ہے اور بیماری میں خوراک مل جاتی ہے۔ اور بچنے والی توانائی کو درخت لکڑی، پتے اور پھل اگانے میں استعمال کر لیتا ہے۔
برچ بھی لکڑی پیدا کرتا ہے اور بہت سی۔ کیونکہ اس کے بڑھنے کی رفتار تیز ہے۔ یہ اضافی توانائی کہاں سے آتی ہے؟ کیا یہ فوٹو سنتھیسس کرنے میں زیادہ اچھے ہیں؟ نہیں۔ یہ اپنے وسائل جلد خرچ کرتے ہیں۔ کفایت شعار نہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اس کا جواب دینے سے پہلے ایک اور نوع کو دیکھتے ہیں جو کہ کوئیکنگ ایسپن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس درخت کا نام اپنے پتوں سے آیا ہے جو کہ ہوا کے ہلکے سے جھونکے میں کانپنے لگتے ہیں۔ اس کی وجہخوف نہیں بلکہ یہ پتے لچکدار ڈنڈی سے لٹکے ہوتے ہیں جنہیں ہوا ہلا دیتی ہے۔ اس وجہ سے اس کی دونوں سائیڈوں سے فوٹوسنتھیسس ہو سکتا ہے۔ یہ باقی انواع سے مختلف طریقہ ہے جہاں پر پتے کی نچلی طرف کے حصے کا کام سانس لینا ہے۔ اس وجہ سے کوئیکنگ ایسپین زیادہ توانائی پیدا کر کے زیادہ تیزی سے بڑھ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب دفاع کی باری آتی ہے تو اس کی اپنی حکمت عملی ہے جو ڈھیٹ ہونے اور سائز پر منحصر ہے۔ ہرن انہیں ہر سال چباتے ہیں لیکن یہ اپنی جڑوں کا نظام بڑھاتے جاتے ہیں۔ اور یہاں سے اضافی کونپلیں اگانا شروع کر دیتے ہیں۔ جب سال گزرتے ہیں تو یہ تنے بننے لگتے ہیں۔ ایک درخت کئی سو مربع گز تک پھیل سکتا ہے۔
ایسا سب سے بڑا درخت فش لیک نیشنل فارسٹ یوٹاہ میں ہے۔ یہ ایک ہزار سال پرانا درخت ایک سو ایکڑ پر پھیلا ہے اور چالیس ہزار تنے اگا چکا ہے۔ یہ درخت خود میں ایک جنگل ہے اور اس کو “پانڈو” کا نام دیا گیا ہے۔ ایک نتا مٹی سے سر نکالنے کے بعد صرف بیس سال میں اونچا درخت بن جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مسلسل مشقت اور تیزرفتار بڑھوتری کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ تیس سال میں ہی تھکن آن لیتی ہے۔ اوپر کی شاخیں پتلی ہونے لگتی ہیں۔ یہ خود میں پریشان کن نہیں لیکن فرش پر دھوپ پہنچنے لگتی ہے۔ نئی نباتاتی انواع کو پیر جمانے کا موقع مل جاتا ہے جن سے اس کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مہم جو انواع نے اب اس کو ڈھک دینا ہے۔ اور جب یہ ایسا کر رہی ہیں تو اپنے موت کے پروانے پر دستخط ہیں۔ یہ مقابلہ ہار جائیں گے۔ سہج رفتار سے بڑھنے والے نوجوان حریف چند دہائیوں میں ان کے قد تک پہنچ چکے ہوں گے اور یہ تھک چکے ہوں گے۔ اسی فٹ سے آگے قد بڑھانے سے قاصر ہوں گے۔
ان کے سائے میں اگنے والے بیچ، پاپلر اور دوسری انواع کے لئے اسی فٹ بڑی بات نہیں۔ یہ ان میں سے اپنا راستہ بنا کر اوپر نکل جائیں گے اور روشنی کو قابو کر لیں گے۔ ان کے گھنے چھتر کے نیچے دھوپ کا راستہ رک جائے گا۔
اس سے مقابلے کے لئے مہم جو درختوں نے کچھ حربے رکھے ہوئے ہیں۔ سلور برچ چند سال مزید نکالنے کے لئے پتلی اور لمبی ٹہنیاں اگائے گا۔ یہ چابک کی طرح کام کریں گی۔ ہلکی ہوا سے بھی جھول جائیں گی۔ اور ہمسائیوں پر کوڑے کی طرح برسیں گی اور ان کے پتے اور ٹہنیاں گرائیں گی۔ کچھ دیر یہ چلتا رہے گا لیکن ان کے توانائی کے ذخائر ختم ہو جائیں گے۔ اور یہ مر کر مٹی میں مل جائیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر یہ مقابلہ نہ بھی ہو تو بھی ان کی زندگیاں لمبی نہیں ہوتیں۔ اوپر بڑھنے میں ان کا فنگس کے خلاف دفاع کمزور ہوتا ہے۔ جلدی جلدی بڑھنے کا مطلب یہ تھا کہ ان کے خلیات بڑے تھے اور ان میں بہت سی ہوا بھری تھی۔ فنگس کے ریشے اس میں آسانی سے پھیل سکتے ہیں۔ تنے کو گلا سکتے ہیں۔ اور چونکہ یہ انواع تنہا کھڑی ہوتی ہیں تو آندھیوں کے تھپیڑے سست کر دینے والے ہمسائے بھی نہیں ہوتے۔ فنگس سے کمزور ہونے والا تنا کسی طوفان میں اوندھے منہ گر جاتا ہے۔
لیکن یہ اس نوع کے لئے ٹریجڈی نہیں۔ اس کا جلد پھیل جانے کا مقصد پہلے ہی پورا ہو چکا تھا۔ اور اس نے اپنی اگلی نسل کے بیج پہلے ہی پھیلا دیے تھے۔
ویرانے میں جنگل اگا دیا تھا جس نے سب کے لئے زمین کو تبدیل کر دیا تھا۔
(جاری ہے)

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں