باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 21 جولائی، 2024

پرچم (47) ۔ وسطی امریکہ


میکسیکو کے جنوب میں وسطی امریکہ کے ممالک ہیں۔ 1821 میں اس علاقے نے سپین سے آزادی حاصل کی تھی۔ میکسیکو نے اس کو اپنی سلطنت کا حصہ بنانے کی کوشش کی تھی لیکن اس کو میکسیکو کے ساتھ ملنے میں دلچسپی نہیں تھی۔ اس کے خلاف یہاں کے لوگوں نے ہتھیار اٹھا لئے۔ میکسیکو خود انتشار کا شکار ہو گیا تو یہ معاملہ ختم ہوا۔ 1823 میں یہاں پر فیڈرل ری پبلک آف سنٹرل امریکا کی ریاست قائم ہوئی۔ اس کا جھنڈا نیلا، سفید اور نیلا تھا جس کے درمیان کے ڈیزائن میں ملک کا نام تھا اور پانچ پہاڑ تھے جو کہ یہاں کے پانچ خطوں کی نمائندگی کرتے تھے۔ ان پانچوں خطوں کو جوڑنے کی وجہ سپین سے آزادی کی تھی اور پھر میکسیکو کے خلاف جدوجہد کی۔ جب یہ وجوہات ختم ہوئیں تو آپس کے سیاسی اور جغرافیائی اختلافات سامنے آنے لگے۔ مشترک دشمن کے نام پر بننے والی ریاست میں دشمن ختم ہونے جانے کے بعد دراڑیں پڑنے لگیں۔ سالوں کے عدم استحکام کے بعد نکاراگوا 1838 میں الگ ہو گیا۔ 1840 تک یہ فیڈریشن ختم ہو چکی تھی۔ گوئٹے مالا، ہونڈرس، ال سلواڈور، کوسٹاریکا اور نکاراگوا میں یہ علاقہ تقسیم ہو گیا۔ پانچوں آزاد، غیرمستحکم اور پسماندہ ممالک بنے۔ ان سب کو نئے جھنڈے کی ضرورت تھی اور اس میں پچھلے جھنڈے سے ہی مدد لی گئی۔
نکاراگوا کا جھنڈا بالکل فیڈرل ری پبلک جیسا ہے۔ صرف نیلے رنگ کے شیڈ کا فرق ہے۔ ال سلواڈور کا بھی اسی طرح کا ہے جبکہ اس کے درمیان کے پانچ پہاڑ مثلث میں ہیں۔ ہونڈرس کا بھی ایسا ہی ہے۔ پانچ پہاڑوں کی جگہ پر پانچ ستارے بنے ہیں۔ گوئٹے مالا کے جھنڈے پٹیاں افقی کے بجائے عمودی ہیں۔ کوسٹا ریکا کا جھنڈا بھی ایسا ہی تھا لیکن جب یہاں پر 1848 میں انقلاب آیا تو اس میں کچھ ترمیم کر لی گئی۔ دلچسپ چیز یہ ہے کہ پانچوں جھنڈوں میں پانچ پہاڑ یا ستاروں جیسی علامت رکھی گئی ہے۔ ایسا ناممکن نہیں کہ مستقبل میں کسی وقت یہ آپس میں اتحاد کر کے ریاست بن جائیں۔
اس کی کوششیں دو سو سال میں کئی بار ہوتی رہی ہیں۔ لیکن کامیابی نہیں رہی۔ وسطی امریکہ کی ریاستیں میں آمریت، جنگیں، انقلاب، بغاوت، غیرجمہوری جمہوریتیں اور اندھا دھند کرپشن سے عبارت رہی ہیں۔ اور اس کرپشن کا مسئلہ نہ صرف وسطی امریکہ کا ہے بلکہ پورے لاطینی امریکہ کا۔ برازیل میں ایک فقرہ بولا جاتا ہے کہ Rouba, mas faz۔ جس کے معنی ہیں کہ “کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے”۔
کرپشن کے بارے میں اس کو بے بسی کا اعتراف کہا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاہم، اکیسویں صدی میں وسطی امریکہ میں سیاسی صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ انقلاب کا بھوت اتر چکا ہے۔ فوجی جنرلوں کو واپس بیرکوں کی طرف دھکیلا جا چکا ہے۔ عدلیہ آزاد ہو رہی ہے اور سیاستدانوں کی نگرانی کے توازن کی کشمکش میں ہے۔ اس استحکام نے ممکن کیا ہے کہ نئے فیصلے لئے جا سکیں۔ امن قائم ہو رہا ہے۔ آزاد تجارت کے معاہدے ہو رہے لیں۔ وسطی امریکہ کی پارلیمان وجود میں آ چکی ہے (جس کا اپنا جھنڈا ہے)۔ بغیر ویزہ کے آزدانہ نقل و حرکت ہو رہی ہے۔  
(جاری ہے)




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں