کیا پودے ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہمیں اب بہتر ملتا جا رہا ہے۔ کینیڈا کی سوزن سمارڈ نے پچیس برس قبل اس پر پہلی بار تحقیق شروع کی۔ ابتدائی تحقیق پیپر برچ، ڈگلس فر اور سیڈر کے درختوں پر تھی۔ فر کے درخت کو سیاہ کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا کہ وہ فوٹوسنتھیسز نہ کر سکے۔ کاربن کے ریڈیوایکٹو آئسوٹوپ سے بنی کاربن ڈائی آکسائڈ کو سرنج کے ذریعے برچ کے درخت میں میں ڈالا گیا۔ کچھ گھنٹے بعد جب فر کے ڈھکے درخت کو گیگر کاؤنٹر سے چیک کیا تو معلوم ہوا کہ ریڈیوایکٹو کاربن وہاں موجود تھا۔ یعنی کہ زیرِزمین رابطے سے ایک درخت نے دوسرے کی خوراک کی کمی پوری کر دی تھی۔ اس پہلے بریک تھرو کے بعد تجربات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ درختوں کے آپس میں رابطے کرنے کے پیچیدہ طریقہ کار ہیں اور ان کا باہمی تعلق ایک دوسرے سے تعاون کا ہے۔ پچیس سالوں اور سینکڑوں تجربات کے بعد ہم کئی انتہائی دلچسپ چیزوں سے واقف ہو چکے ہیں۔ یہ تبادلہ صرف کاربن تک محدود نہیں، درخت آپس میں نائیٹروجن، فاسفورس، پانی، سٹریس سگنل اور پیچیدہ کیمیکلز کا تبادلہ کرتے ہیں۔ یہ تبادلہ زیرِ زمین فنگس کے نیٹ ورک کے ذریعے ہوتا ہے جسے مائیکورائیزل نیٹ ورک کہا جاتا ہے یعنی فنگس اور جڑوں کا تانا بانا۔ درخت اپنی جڑوں سے جڑی فنگس سے کاربن کا تبادلہ اس طرز پر کرتے ہیں جیسے کہ نیورل سسٹم۔ فنگس اور درخت کا یہ تبادلہ بھی باہمی فائدے کے لئے ہوتا ہے۔ یہ نیٹ ورک انتہائی کثیف ہے اور نہ صرف یہ ایک نسل کے درختوں کو بلکہ کئی مختلف نسلوں کے درختوں کو بھی جوڑتا ہے۔ باہمی تعاون کے نیٹ ورک میں مختلف موسموں میں خوراک کا بہاؤ بھی فرق سمت میں ہوتا ہے اور معلومات کا تبادلہ دوطرفی ہوتا ہے۔ منسلک ڈایاگرام ایک ایسے نیٹ ورک کی ہے جس میں گولے درختوں کو دکھا رہے ہیں اور لائنیں کنکشنز کو۔ ان میں سے کچھ درخت زیادہ رابطے رکھتے ہیں۔ زیادہ رابطے رکھنے والے نوخیز پودوں تک زیادہ معلومات پہنچاتے ہیں۔ زیادہ سوشل درخت سینکڑوں دوسرے درختوں سے بھی جڑا ہو سکتا ہے۔ ایسے مرکزی درخت جو کاربن نئے اگنے والے درختوں تک پہنچاتے ہیں، اس کی وجہ سے ان کے بڑھنے کے امکانات میں چار گنا تک اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایک تجربہ اور کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ درخت اپنے بیجوں سے اگنے والے پودوں کو زیادہ معلومات دیتے ہیں ہیں یعنی انہیں بھی اپنے بچوں کی پہچان ہے۔ یہاں تک کہ درختوں نے اپنی جڑیں اس طرف پھیلانا بند کر دیں جہاں نوخیز پودا پروان چڑھ رہا تھا۔ جب درخت مرنے کے قریب ہوتا ہے تو اس وقت کاربن آئسوٹوپ سے پتا لگایا گیا کہ یہ وہ وقت ہے جب وہ انتہائی تیزرفتاری سے آس پاس اپنے سگنل بھیجتا ہے اور اپنا نامیاتی مادہ نیٹ ورک میں تقسیم کر دیتا ہے جس سے نئے پودے طاقتور ہوتے ہیں۔ جنگلات صرف درختوں کا مجموعہ نہیں بلکہ پیچیدہ نیٹ ورک ہیں۔
اس سے ہمیں علم ہوتا ہے کہ نباتات میں بھی وہی نسلیں کامیاب رہیں جو تعاون کے اچھے نیٹ ورک بنا سکی ہیں اور نباتات کی زندگی بھی اتنی سادہ نہیں جتنا کہ پہلی نظر میں لگتی ہے۔
اس نیٹ ورک کے بارے میں ٹیڈ ٹاک
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں