باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 18 فروری، 2024

درختوں کی زندگی (20) ۔ مشکلات کے ماہر


درخت بہت مشکل حالات کا سامنا کر سکتے ہیں۔ اور انہیں ایسا کرنا ہی ہوتا ہے۔ جب بیج گرتا ہے تو اس کی جگہ کو صرف چلتی ہوا یا کوئی جانور بدل سکتا ہے۔ اور جب ایک بار یہ بہار میں پھوٹ پڑیں تو اب اس کی قسمت طے ہو چکی ہے۔ اب اس نے تمام عمر یہیں گزارنی ہے۔اور اسے جو کھیلنے کے پتے ملے ہیں، انہی پر گزارا کرنا ہے۔ زیادہ تر کمسن پودوں کے لئے زندگی بہت سے چیلنج لے کر آتی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ روشنی کم ہو اور یہ بڑے درخت کے سایے میں ہوں۔ یا روشنی زیادہ ہو اور ان کے نازک سبزے کو سخت دھوپ جھلسا دے۔ یا دلدلی زمین ہو جو زیادہ تر درختوں کی جڑیں گلا دیتی ہے۔ یا پھر خشک ریتلی مٹی جہاں پر پیاس سے مر جائیں۔ ایسی جگہیں جہاں مٹی میں غذائیت نہ ہو ۔۔۔ پتھریلی یا بڑے درختوں کی شاخوں کے درمیان ۔۔۔ بیج کیلئے گرنے کے بدقسمت مقامات بہت سے ہیں۔
نرم، غذائیت والی، بھربھری مٹی جہاں ہوا کئی فٹ گہرائی تک پہنچے ۔۔ نمی ہو، زیادہ گرمی نہ پڑے، سردیوں میں برف زیادہ نہ پڑے۔ طوفان سے بچاؤ ہو۔ اور زمین پر فنگس یا کیڑے زیادہ نہ ہوں۔  اگر پودے جنت ارضی کا سوچ سکتے تو وہ ایسی ہوتی۔
لیکن ایسی آئیڈیل جگہیں بھلا کہاں ملتی ہیں۔  اور یہ انواع کے تنوع کے لئے اچھی بات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر وسطی یورپ ایسی ارضی جنت ہوتی تو صرف بیچ کے درخت نظر آتے۔ یہ اچھی جگہ کا فائدہ اٹھانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ تیزی سے بڑھ کر اپنے پتوں کی چھتری پھیلا کر مقابلہ کرنے والوں کو ہرا سکتے ہیں۔ ہارنے والوں کو اپنے شاخوں سے ڈھک کر غذا سے محروم کر سکتے ہیں۔ ایسے طاقتور حریف سے نپٹنے کے لئے مقابلہ کرنے والوں کو متبادل حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اور ماحول میں اپنے کونے تلاش کرنے ہیں۔ کسی ایک اور زیادہ چیزوں میں کچھ صبر کرنا ہے۔ کیونکہ زمین پر کوئی بھی جگہ آئیڈیل جنت نہیں۔ اور جو درخت دستیاب ماحول سے ایڈاپٹ ہونے کی صلاحیت پا سکے گا، وہ جغرافیے کو فتح کر سکتا ہے۔ اور ایسا ایک درخت spruce ہے۔ (یہ صنوبر کی قسم کا درخت ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں پر گرمیاں مختصر ہوں اور سردیاں سخت، وہاں پر سپروس جگہ بنا لیتا ہے۔ سائبریا، کینیڈا اور سکنڈینیویا میں بڑھنے کا موسم مختصر ہے اور سال میں صرف چند ہفتے اس کا موقع ملتا ہے۔ بیچ کے درخت کو اس ماحول میں اتنا وقت ہی نہیں ملے گا کہ وہ اس موسم کے آخر تک اپنے سارے پتے کھول سکے۔ اور سردیاں اتنی سخت ہوں گی کہ درخت کا بچنا مشکل ہو جائے گا اور یہ سپروس کی مہارت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپروس اپنی چھال اور سوئی جیسے پتوں میں ضروری چکنائی رکھتا ہے جو کہ اینٹی فریز کا کام کرتی ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ اسے اپنا سبزہ گرانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ انہیں شاخوں کے گرد لپیٹ دیتا ہے اور جسی طرح بہار آتی ہے، یہ اپنا فوٹوسنتھیسس شروع کر لیتا ہے۔ ایک دن بھی ضائع نہیں کیا جاتا اور چند ہی ایسے ہفتے ملتے ہیں جب شوگر اور لکڑی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ان میں درخت اپنا قد ایک سے دو انچ بڑھا لیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اپنے پتوں کو نہ گرانا خطرے سے خالی نہیں۔ برف شاخوں پر پڑتی ہے اور جمع ہوتی ہے۔ یہ وزن اتنا بھاری ہو سکتا ہے کہ درخت کو توڑ دے۔ یہ اس سے بچنے کیلئے دو کام کرتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اس کا تنا بالکل سیدھا ہوتا ہے۔ جب سٹرکچر اتنا اچھا عمودی ہو تو اسے توڑنا مشکل ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ گرمیوں میں اس کی شاخیں افقی طور پر باہر نکلی ہوتی ہیں۔ جسی طرح ان پر برف پڑتی ہے، یہ جھک جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کے اوپر یہ ایسے تہہ بن جاتی ہے جیسے چھت پر ٹائل لگی ہو۔ یہ ایک دوسرے کو سہار لیتی ہیں اور درخت کا رقبہ زیادہ نہیں ہوتا جس پر برف جمع ہو سکے۔ زیادہ برف آپس پاس گر جاتی ہے۔
برفانی علاقوں اور پہاڑوں میں اگنے والے سپروس اپنا چھتر پتلا اور لمبا رکھتے ہیں جس میں چھوٹی شاخیں ہوتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتے نہ گرانے کا ایک اور خطرہ ہے۔ یہ ہوا کیلئے سطحی رقبہ زیادہ کر دیتے ہیں۔ اور اس کا مطلب یہ کہ سرما کے طوفان میں ان کے گرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ جو چیز انہیں اس سے بچاتی ہے، وہ ان کے بڑھنے کی بہت سست رفتار ہے۔ صدیوں کی عمر کے درختوں کے قد بھی تیس فٹ سے زیادہ نہیں ہوتے۔ طوفان سے گرنے کا امکان اسی فٹ قد کے بعد بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسطی یورپ کے قدرتی جنگلات میں اکثریت بیچ کے درختوں کی ہے۔ اور یہ زمین تک بہت کم روشنی پہنچنے دیتے ہیں۔ صبر اور کفایت شعاری کی علامت yew ہے جو ان حالات کا فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ یہ بڑھنے میں بیچ کا مقابلہ نہیں کر سکتا تو اس نے مہارت جنگل کے تاریک فرش پر اگنے میں کی ہے۔ یہاں تک صرف تین فیصد روشنی چھن کر پہنچتی ہے۔ ان حالات میں یہ اپنی سست رفتاری سے بڑھتا ہے۔ ایک صدی کے بعد یہ بلوغت تک پہنچتا ہے اور قد بیس فٹ کا ہوتا ہے۔ اس دوران بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ چرندے منہ مار جائیں اور اس کو کئی سال پیچھے دھکیل دیں۔ یا بیچ کا درخت اس پر گر جایے اور اسے گرا دے۔ لیکن یہ سخت جان درخت اپنے حفاظتی اقدامات کرتا ہے۔ شروع سے ہی یہ اپنی جڑوں کو بڑھانے میں کسی بھی دوسری نوع کے مقابلے میں زیادہ توجہ دیتا ہے۔ یہ غذائیت سنبھال کر رکھتا ہے اور اگر زمین کے اوپر کچھ حادثہ ہو جائے تو دوبارہ اگ آتا ہے۔ اس وجہ سے اس کے کئی تنے ہو سکتے ہیں جو کہ بڑے ہو جانے کے بعد آپس میں مل سکتے ہیں جو کہ انہیں بھدی سی شکل دے سکتے ہیں۔ اور یہ درخت بہت طویل عمر پاتے ہیں۔ ہزار سال سے زیادہ۔ اور جب ان کے قریب کا اونچا درخت مر جاتا ہے تو انہیں دھوپ میں نہانے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ 65 فٹ سے اونچے نہیں ہوتے۔
ایک اور درخت hornbeam کا ہے جو ایسی ہی حکمت عملی اپناتا ہے۔ اور اس کی خاص مہارت خشک سالی اور زیادہ گرمی برداشت کر لینا ہے۔ جنوب کی طرف رخ کئے ڈھلوانوں میں یہ جیت جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلدلی زمین میں جہاں پانی کھڑا ہو، آکسیجن کی کمی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ یہاں پر زیادہ تر درختوں کی جڑیں زندہ نہیں رہ پاتیں۔ ایسی جگہیں چشموں کے قریب ہوتی ہیں جو اکثر زیرِ آب آ جاتی ہیں۔ اگر یہاں پر درخت اگنے لگے تو ایک موسم آئے گا جب موسلا دھار بارش ہو گی تو کھڑا ہو جانے والا پانی درخت کا سانس بند کر دے گا۔ یہ ختم ہو جائے گا۔ زیادہ تر درختوں کے لئے غیرموزوں اس جگہ میں alder اگتے ہیں۔ ان کا قد سو فٹ تک جا سکتا ہے اور دلدلی زمین سے انہیں کوئی مسئلہ نہیں۔ ان کی کامیابی کا راز جڑوں کے اندر ہوا کی نالیوں کا نظام ہے۔ یہ آکسیجن کو جڑوں کے پورے نیٹورک تک لے جاتی ہیں۔ یہ ویسا ہے جیسے غوطہ خور آکسیجن کے لئے سانس کی ٹیوب لے گئے ہوں۔ اس کے علاوہ درخت کے تنے کے نچلے حصے میں کارک کے خلیات ہوتے ہیں۔ یہاں سے ہوا اندر جا سکتی ہے۔ اسے مسئلہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب لمبے عرصے تک پانی اس کے سانس کے سورخوں سے اوپر تک کھڑا رہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر اس کی جڑیں فنگس کے جارحانہ حملے کا مقابلہ نہیں کر پاتیں۔
(جاری ہے)






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں