باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 8 جنوری، 2020

جرمنی ۔ تجزیہ (قسط نمبر چھ)



جرمنی کی تعمیرِ نو اور 1945 سے 1990 تک کا سفر غیرمعمولی رہا ہے۔ اگر ہم جرمنی کو دیکھیں کہ اس کی تاریخ ویسی کیوں رہی تو چند نمایاں فیکٹر نظر آتے ہیں۔

جرمنی جغرافیائی لحاظ سے ایک بہت مشکل جگہ رہی ہے۔ اس کی سرحدیں نو ممالک سے ملتی ہیں۔ نیدرلینڈز، بلجیم، لگزمبرگ، فرانس، سوئٹزرلینڈ، آسٹریا، چیک ری پبلک، پولینڈ اور ڈنمارک۔ جبکہ سمندری سرحدیں آٹھ ممالک سے چھوتی ہیں۔ برطانیہ، ناورے، سویڈن، فن لینڈ، روس، اسٹونیا، لٹویا اور لتھوانیا۔ اس کے علاوہ جب اس نے توسیع کی تو اس کے ہمسائیوں میں اٹلی، یوگوسلاویہ اور ہنگری بھی آ گئے تھے اور ہیبسبرگ ایمپائر اس کا زمنی ہمسایہ بن گئے تھا۔ کُل بیس ممالک میں سے انیس پر (سوائے سوئٹزرلینڈ کے) اس نے حملہ کیا یا فوج وہاں پر رہی۔ ان میں سے پانچ طاقتور ہمسائے ہیں (فرانس، روس، ہیبسرگ ایمپائر، برطانیہ اور سابق سویڈن)۔ اور ان ہمسائیوں سے سرحدوں میں حفاظت کے قدرتی بیرئیر بھی نہیں۔ یعنی کوئی دشوار گزار پہاڑ یا دلدلی علاقے وغیرہ ان کے درمیان نہیں۔ فوجیں آسانی سے گزر سکتی ہیں۔

سترہویں صدی کی تیس سالہ جنگ جو اس وقت کی سب سے بڑی جنگ تھی، سب سے زیادہ اسی جگہ پر لڑی گئی۔ اس نے اس جگہ کی آبادی میں سے نصف کو ختم کر دیا تھا! اگلی دو صدیوں تک اس کے اثرات رہے تھے۔ یورپ کے یکجا ہونے والے ممالک میں یہ آخری ملک تھا جس کو بسمارک نے مہارت سے 1871 میں اکٹھا کیا۔ اگر نقشہ اور حالات دیکھے جائے تو یہی لگتا ہے کہ مغرب میں فرانس اور مشرق میں روس کے درمیان سینڈوچ ہو جانے والے اس ملک کی ان سے جنگیں ناگزیر تھیں اور وہ ہوئیں۔ اس کو دو حصوں میں توڑ دیا گیا اور اس کی حکومت اس کو اکٹھا کرنے کے لئے کچھ کرنے کے قابل نہیں تھی۔ انہوں نے اس سب کے درمیان میں ملنے والے مواقع کو اپنے حق میں استعمال کیا۔

جرمنی میں بُرے لیڈر رہے لیکن برے لیڈروں پر جرمنی کی اجارہ داری نہیں۔ ہر ملک میں رہے ہیں، لیکن بُری لیڈرشپ کا نقصان ایسے ممالک کو زیادہ ہوتا ہے جو مشکل جغرافیائی صورتحال میں ہوں۔ قیصر ولہلم دوئم کی غلطیوں کی قیمت اس کو بھاری ادا کرنا پڑی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خودترسی یا خود کو مظلوم سمجھنے کی عام عادت کے حوالے سے جرمنی منفرد رہا۔ پہلی جنگِ عظیم اور دوسری جنگِ عظیم میں اسے شکست ہوئی لیکن ان دونوں واقعات کے بعد کے ردِعمل میں زمین و آسمان کا فرق رہا۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد اجتماعی طور پر خود کو مظلوم سمجھنا بڑے نقصان کی وجہ بنا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد معاملہ برعکس رہا۔ ایڈولف ہٹلر نے پہلی جنگِ عظیم کی شکست کے جذبات کو استعمال کرتے ہوئے حکومت حاصل کی تھی۔ “ان سویلین سیاستدانوں نے ہماری پیٹھ پر چھرا گھونپا”۔ “ہم نے جیتی ہوئی جنگ میں ہتھیار ڈالے”۔ اس جنگ کے بعد تمام غصہ بیرونی طرف رہا۔ حقائق کا سامنا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ محاصرے کی ذہنیت ملک کو اگلی بڑی تباہی کی طرف لے گئی۔

اس کے مقابلے میں دوسری جنگِ عظیم میں جرمن یا غیرجرمن کسی کو بھی یہ شک نہیں تھا کہ جنگ کا ذمہ دار جرمن نازی پارٹی تھی۔ جرمن آہستہ آہستہ اپنے ماضی کو قبول کرنا سیکھ گئے۔ جرمنوں نے بھاری نقصان اٹھایا تھا۔ بارہ ملین لوگ بے گھر ہوئے تھے۔ خواتین کو ریپ کیا گیا تھا۔ ان سب مسائل کی طرف توجہ دی گئی لیکن اپنے آپ کو مظلوم سمجھنے والا رویہ قومی مزاج میں سرایت نہیں کیا۔ اس چیز کو تسلیم کیا گیا کہ جو ان کے ساتھ ہوا، اس میں ان کا اپنا بھی قصور تھا۔ آج یورپ میں اس کی قیادت اور دنیا بھر سے بہترین تعلقات اس وجہ سے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہاں جرمنی نے اپنی کئی روایتوں کو چھوڑا، وہاں بہت کچھ برقرار بھی رکھا۔  جرمن شناخت بہت مضبوط ہے۔ بہت ہی مضبوط۔ جرمن زبان سب کو جوڑتی ہے۔ تقریباً تمام جرمن ایک سے زیادہ زبانیں بولتے ہیں اور یورپ کی دوسری بڑی زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں لیکن تمام مقامی علاقائی زبانیں، جیسے کہ سوربین، باوارین، لمبورگش، آلیمانک، رینش، رومانی، فریشین تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔ آرٹ اور آرکیٹکچر سے لے کر کمیونیٹی ویلیوز میں جرمن ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹے جرمن شہر میں بھی اوپرا ہاوس ہیں۔ ہر گاوں اور آبادی کا اپنا خاص رنگ ہے۔ تعمیراتی قوانین میں گھر کی چھت کے ڈیزائن تک کو بھی خاص اس علاقے کے مطابق رکھنا ہوتا ہے۔ جرمن شناخت خاص طور پر جرمن فلسفے، سائنس، صنعت اور لٹریچر میں بھی نظر آتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیڈرشپ کے کردار میں ہمیں جرمنی میں انتہائیں ملتی ہیں۔ اگر ہٹلر نہ ہوتے تو بھی شاید جرمنی جنگ کرتا لیکن یہ بڑی مختلف ہوتی۔ ہٹلر غیرمعمولی طور پر کرشماتی بھی تھے اور سفاک بھی۔ حقیقت پسند نہ ہونے کی وجہ سے عسکری طور پر بڑی ناکامی کا شکار ہوئے۔ اپنے جرنیلوں کی رائے کو بار بار نظرانداز کرتے رہے۔ بار بار انہوں نے جنگ کا دائرہ وسیع تر کیا جو ان کی شکست کا باعث بنا۔ دوسرے برے لیڈر قیصر ولہلم تھے جو ہٹلر کی طرح طاقتور اور سفاک نہیں تھے لیکن جذباتی لحاظ سے غیرمستحکم تھے اور اپنے فیصلوں اور معاملہ فہمی کے فقدان نے جرمنی کو کمزور پوزیشن میں جنگِ عظیم اول میں دھکیل دیا۔

جبکہ دوسری طرف ہمیں ایک غیرمعمولی لیڈر کی مثال برانٹ کی صورت میں ملتی ہے، جنہوں نے غیرحقیقی نیشنلزم ترک کیا اور وہ کر دکھایا جو کسی کے لئے بھی انتہائی مشکل ہوتا ہے۔  سیاسی جرات، جس سے اپنے ملک کے حصے پر دعویٰ ختم کر دیا۔ دشمن سے معاملات کر لئے، اپنی غلطیاں سب کے سامنے تسلیم کر لیں۔ ان کی حقیقت پسندی اور بہادری نے جرمنی کو بدلنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ کونراڈ اڈنائر، ہلمٹ شمٹ اور ہلمٹ کوہل جیسے لیڈر کرشماتی تو نہیں لیکن ملک کے لئے بہت موثر رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا کے ہر ملک کی طرح جرمنی کے اپنے مسائل ہیں، اپنے چیلنج، اپنے مواقع، اپنے فیصلے۔ جو اس کے آنے والے وقت کی شکل بنائیں گے۔  کچھ بھی مستقل نہیں، تاریخ مسلسل چلتا پہیہ ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں