باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

سرمایہ دارانہ نظام کی اخلاقیات


آج کی دنیا ایسی ہی کیوں ہے؟ بگ بینگ، کائنات کا پھیلنا، درجہ حرارت بدلنا، کائناتی مادے اور قوتیں، ان سب کی تفصیلات میں بڑی حد تک سب کا اتفاق ہے۔ کئی جزئیات پر اختلافات بھی ہیں لیکن یہ سائنسی اختلافات ہیں، اخلاقی نہیں۔ سب لوگ مل کر کام کرتے ہیں اور تیزی سے علم بڑھ رہا ہے۔ اس کو مزید زوم کرتے ہیں۔ اس دنیا میں ہم آج تک کیسے پہنچے؟ پیلینٹیولوجسٹ اور جیولوجسٹ وغیرہ اس کو سٹڈی کرتے ہیں۔ اس سب کی تفصیلات میں بڑی حد تک سب کا اتفاق ہے۔ کئی جزئیات پر اختلافات بھی ہے۔ یہ بڑی حد تک سائنسی اختلافات ہیں لیکن کئی بار اس میں اخلاقیات بھی آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ نسل اور جنس جیسی چیزوں کے بارے میں کئی ذاتی آراء بھی بیچ میں آ جاتی ہیں۔ لیکن اخلاقی اختلافات معمولی نوعیت کے ہیں اور بڑی حد تک یہاں پر بھی سب لوگ مل جل کر کام کرتے ہیں اور تیزی سے علم بڑھ رہا ہے۔ اب اس کو مزید زوم کرتے ہیں۔ آج نیویارک ایسا کیوں ہے؟ یا چین نے پچھلی کچھ دہائیں میں ترقی کیسے کی؟ یہاں پر تمام تر اختلافات سیاسی اور اخلاقی نوعیت کے ملتے ہیں۔

رٹل اور ویبر نے 1973 میں پیپر لکھا جس میں دنیا کے مسائل کو دو میں تقسیم کیا۔ ایک وہ جن کی شناخت، وجہ اور حل پر سب کا اتفاق آسان ہے۔ دوسرے مشکل مسائل۔

پہلی طرح کے مسائل کی ایک مثال ہیضے کی بیماری کی۔ انیسویں صدی میں اس کی وجہ سے کروڑوں ہلاکتیں ہوئیں۔ اس کی وجہ پانی میں پایا جانے والا ایک بیکٹیریا ہے۔ اس کو حل کرنے کے لئے صاف پانی، سیوریج، ٹوائلٹ سسٹم لگے۔ مسئلہ حل ہو گیا۔ ہیضہ اب دنیا میں بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ اس کی شناخت، وجہ اور حل پر سب متفق تھے۔

مشکل مسائل میں غربت، بے روزگاری، معاشی ناہمواری، انسانی حقوق، حکومتی اخراجات، گلوبل وارمنگ، نسل پرستی جیسے مسائل ہیں۔ ان کا تعلق سیاسی اور سماجی اقدار سے بنتا ہے۔ نارڈہوس اور شلنبرگر کے 2014 کے پیپر میں کہنا ہے کہ اس طرح کے مشکل مسائل کو بیان ایک خاص حل پہلے ذہن میں سوچ کر کیا جاتا ہے اور یہ حل بیان کرنے والا اچھے معاشرے کے اپنے تصور اور اقدار کو پہلے سے ہی ذہن میں لے کر بیان کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں سوشل یا ماحولیاتی پالیسی میں ماہرین اختلافات کی خلیچ پار نہیں کر پاتے تو پھر ان کا حل کیا ہے؟

پہلی نوعیت کے مسائل کے لئے جو سب سے مؤثر آلات ہیں، وہ مائیکروسکوپ کی طرح کے ہیں۔ دوسری نوعیت کے مسائل کے لئے جو سب سے مؤثر آلات ہیں، وہ کہانیاں ہیں۔

سیاسی اور اخلاقی مسائل پر رائے سازی کا ایک غیرمؤثر طریقہ حقائق بیان کرنا ہے۔ انسان اپنا ذہن منطق کی دنیا میں نہیں، جذبات کی دنیا میں بناتا ہے۔ ہم عمر کے ساتھ ساتھ دنیا کے بارے میں اپنی کہانیاں بناتے جاتے ہیں۔ جو چیز ہماری اپنے ذہن میں بنی کہانی سے مطابقت رکھے، ہم اس پر سچ کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کی کیپیٹلزم کے بارے میں کیا رائے ہے؟ اس کو دو کہانیوں سے۔

پہلی کہانی
ایک دفعہ کا ذکر ہے، سب ہنسی خوشی کام کرتے تھے۔ کسان فصلیں اگاتے، ہنرمند آلات بناتے۔ زندگی خوبصورت تھی۔ لیکن پھر سرمایہ کارانہ نظام ایجاد ہوا۔ اس نے ہر طرف اپنا گھناؤنا سایہ پھیلانا شروع کیا۔ صنعتوں کی چمنیوں سے اگلتا زہریلا دھواں۔ آؒلودگی جس نے ہر جگہ کو سیاہ کر دیا۔ سرمایہ دار مزدور سے کام نکلوانے میں ماہر ہوتا گیا اور اپنی جیبیں بھرتا گیا۔ لیکن مزدور اکٹھے ہو گئے۔ جب ظلم حد سے بڑھ گیا تو حکومت کو مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے قانون بنانے پڑے۔ لیکن یہ سرمایہ کار باز نہیں آئے۔ انہوں نے حکومت کو خریدا، مزدور یونینز کو توڑا، ان کے تحفظ کے قوانین کو روندا۔ امیر اب امیر تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہم سب غریب تر۔ جمہوریت کمزور اور زمین گرم۔ اب اس عالمی سرمایہ کاری کے نظام کے خلاف اکٹھے ہو کر اس درندے کو ختم کرنا ہمارے لئے ضروری ہو گیا ہے۔

کیا یہ کہانی سچ لگتی ہے؟

دوسری کہانی
ایک دفعہ کا ذکر ہے، ہر کوئی غریب کسان تھا، غلام یا بس رعایا۔ بادشاہ اور جاگیردار سب کچھ کھا جایا کرتے تھے۔ باقی سب محنت کرنے کے باوجود بھوکوں مرا کرتے تھے۔ پھر سترہویں صدی میں سرمایہ دارانہ نظام ایجاد ہوا۔ آزادی شروع ہوئی۔ سب کو یہ پتہ لگا کہ جب لوگوں کو جائیداد کا حق، قانون کی حکمرانی اور فری مارکیٹ ملے تو آپ ایک سوئچ آن کر دیتے ہیں۔ لوگ خود کام کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ محنت کا پھل خود کھا سکتے ہیں۔ نئی مصنوعات خریدتے ہیں، بچوں کو بہتر زندگی دے سکتے ہیں، ایک دوسرے کے کام آ سکتے ہیں۔ بیسویں صدی میں کچھ ممالک نے کمیونزم کا تجربہ کیا جس میں تمام معیشت کو ایک جگہ مرتکز کیا گیا۔ ہر جگہ ایک ہی نتیجہ نکلا۔ ہر شے کی کمی اور ریاستی ظلم۔ لیکن جن ممالک نے سرمایہ دارانہ نظام کو گلے لگایا، ان کی معیشت تیزی سے ترقی کرتی گئی۔ نتائج سب کے سامنے ہیں۔ لیکن بائیں بازو والوں سے ہوشیار رہیں۔ اگر ان کو طاقت مل گئی تو یہ پھر انہی ناکام تجربوں کو دہرانے کی کوشش کریں گے۔ یہ ایسی دنیا نہیں چاہتے جس میں لوگ محنت سے دنیا کی تعمیر کریں اور اپنا کمایا پیسہ اپنے پاس رکھیں۔ یہ سب کو برابر دیکھنا چاہتے ہیں، یعنی ایک ہی جتنا غریب۔ یہ ہر ایک کا فرض ہے کہ ان لوگوں کو اور ان کی سوچ کا مقابلہ کیا جائے۔

کیا یہ کہانی سچ لگتی ہے؟

یہ تو بس کہانیاں ہیں جن کے بارے میں رائے اپنی اپنی۔ یہ دنیا سے زیادہ آپ کا اپنا ٹیسٹ ہیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ
What we believe is what we perceive
ہم دنیا کو ویسا ہی دیکھتے ہیں جو ہمارا اپنا یقین ہوتا ہے۔


ان دو جملوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
پہلا: اگر ناکام ہونے والوں کو ناکام ہونے دیا جائے اور اس کے نتائج بھگتے دئے جائیں تو دنیا ایک بہتر جگہ ہو گی۔
دوسرا: معاف کر دینا انتقام لینے سے بہتر ہے۔

ان کے بارے میں آپ کی جو بھی رائے ہے، درست ہے۔ کیونکہ ان کا جواب اس طرح کا نہیں جیسا کہ یہ کہ پانی ہائیڈوجن اور آکسیجن سے مل کر بنا ہے۔ ہمارے جواب ہماری اقدار کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہی اقدار ورلڈ ویو، سیاسی اور معاشی پالیسی کو۔

کیا ایک ناکام ہونے والے ادارے کو بند کر دیا جائے یا حکومت اس کو سپورٹ کیا جائے؟ ایک کام نہ کرنے والے شخص کی ٹیکس دینے والے کے پیسے سے معاونت کی جائے اور کس حد تک؟ مشکل مالی حالات کا مقابلہ حکومت کو ادارے بند کر کے، سرکاری ملازمتوں سے برخواست کر کے اور ترقیاتی کاموں میں کمی کر کے کرنا چاہیۓ یا پھر نوٹ چھاپ کر مہنگائی کے ذریعے اور قرضہ لے کر؟ معاشی اور سوشل پالیسیوں میں کوئی آسان ٹھیک یا غلط جواب نہیں۔ ٹریڈ آف ہیں۔ کوئی بھی جواب مکمل درست نہیں کیونکہ ہم سب مختلف ہیں۔

تو پھر کیا سوشل پالیسیز میں مل کر کام کرنا ممکن نہیں؟ بالکل ہے، ان سب بحثوں اور جھگڑوں کے ساتھ ساتھ ہم ان میں بھی مل کر کام کرتے ہیں۔ اکانومسٹ متفق ہو جاتے ہیں۔ کوئی پالیسیاں بن جاتی ہیں۔ مخالف آراء آنے سے راستہ ٹھیک کرنے اور اس کو بہتر کرنے کے مواقع ملتے ہیں۔ مخالف کی اچھی دلیل، اچھی رائے اور حقائق کئی بار اثر بھی کر جاتے ہیں۔ اس دنیا کو کوئی ایک ادارہ یا لوگوں کا گروہ کنٹرول نہیں کرتا لیکن ہم اِدھر اُدھر کی ٹکریں مار کر اپنا سفر کر رہے ہیں۔ مایوسیوں کے سمندر اپنی جگہ، مگر ہمارے شہر بدل چکے ہیں اور بدل رہے ہیں۔ چاہے وہ بیجنگ ہو، نیویارک یا ملتان۔ غربت مسلسل گر رہی ہے۔ بھوک کم ہو رہی ہے۔ کسی ایک جگہ نہیں، دنیا میں ہر جگہ۔ خاص طور پر پچھلے دو سو برسوں میں۔ یہ ترقی ہر ایک کے لئے یکساں نہیں۔

رسہ کشی جاری رہے گی۔ شئیر ہولڈرز، ملازمین، کسٹمر، کمیونیٹی اور سپلائیرز کے درمیان۔ یہ رسہ کشی ہی ان میں سے بری پریکٹس، برے لوگ اور برے خیالات کو ختم کر سکتی ہے۔ کامیاب بزنس اور معاشی ترقی سے معیارِ زندگی کا بہتر ہونا خود ایک اعلیٰ اخلاقی قدر ہے۔ لیکن اس رسہ کشی میں زندگی ہے اور اسی میں ترقی۔

سوشل سائنس مشکل اس لئے ہے کہ نیچرل سائنس کی طرح ہر کوئی یک زبان ہو کر سوال ایک ہی جواب نہیں دے گا۔ ممکن اس لئے کہ ہم اپنے بڑے مختلف خیالات سلیقے اور طریقے سے ایک دوسرے سے ڈسکس کر سکتے ہیں۔ مفید اس لئے کہ ہم اپنے خیالات بدل کر آگے جانے میں ہچکچاتے نہیں۔ اہم اس لئے کہ ہمارے مستقبل کے سفر کی سمت کا سب سے زیادہ انحصار اس پر ہے۔ بہتر تعلیم اور بہتر شعور کے ساتھ ہوتا بہتر معیار کا اختلافات سے بھرپور سفر طے کرے گا کہ ہم ستاروں تک پہنچتے ہیں یا خاک اور خون تک۔ ان دو کہانیوں سے آگے تیسری کہانی بھی ہے۔

ساتھ والی تصاویر غربت اور آمدنی پر بنے دنیا کے دو گراف ہیں۔
اس کے مواد کا بڑا حصہ یہاں سے
https://youtu.be/iOu_8yoqZoQ



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں