باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 6 مارچ، 2024

درختوں کی زندگی (44) ۔ قدرتی جنگل


ماحولیاتی تباہی کے اس دور میں ایک رومانس بڑھ رہا ہے۔ یہ قدرت کے ساتھ کا رومانس ہے۔ ایسے علاقوں کا جن کو بالکل بھی چھیڑا نہ جائے۔ قدیم جنگل کٹ گئے ہیں۔ بہت ہی کم بچے ہیں۔
جہاں پر بھی جنگل کو محض معاشی فائدے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، وہ بیمار پڑ جاتا ہے۔ کچھ جگہوں پر پرانے جنگل برقرار رکھنے کا رومانس لوٹ رہا ہے۔ کینیڈا میں گریٹ بئیر فارسٹ ایک مثال ہے جس میں اب 8900 مربع میل پر پرانے درخت ہیں جو ایسے نایاب سفید ریچھ کا بھی گھر ہے جو قطبی ریچھ بئیر نہیں۔ اکیسویں صدی سے ترقی یافتہ ممالک میں اس جنگ کا توازن بدلنا شروع ہو چکا ہے۔ جرمنی میں سیاستدانوں نے اس پر اتفاق کیا کہ پانچ فیصد جنگل کو مکمل طور پر اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے گا تا کہ وہ کل کے بوڑھے درخت بن سکیں۔
اس کو پراسس کی کنزرویشن کہا جاتا ہے۔ قدرت کو اس میں دلچسپی نہیں کہ ہم انسان کیا چاہتے ہیں۔ ان کو اپنے حال پر چھوڑنے کا نتیجہ ویسا نہیں نکلتا جیسا کہ ہمارا خیال ہوتا ہے۔ قدرتی جنگل کو میچور حالت میں پہنچے ہوئے بھی وقت لگتا ہے۔ پہلی بار قدرت کے حوالے کئے گئے جنگل میں کیڑے آتے ہیں۔ بہت سے کیڑے جن کو روکنے والا کوئی نہیں۔ یہ جنگل میں آگ کی طرح پھیلتے ہیں اور اپنے پیچھے ہر طرف دور دور تک مردہ درخت چھوڑ جاتے ہیں۔ اس پرمژدہ منظر کو دیکھنا بھلا نہیں لگتا۔ جو لوگ اس کے لئے تیار نہ ہوں، ان کیلئے یہ موت اور تباہی کے مناظر ہیں۔ باواریا کے قومی جنگل کا پچیس فیصد حصہ اسی طرح مردہ ہو گیا ہے۔ لیکن یہ مردہ تنے نئے جنگل کی زندگی ہیں۔ ان میں پانی ذخیرہ رہتا ہے جو گرمی کو کم کر دیتا ہے۔ یہ ہرنوں کے لئے رکاوٹ کا کام کرتے ہیں۔ اس طرح کی گئی حفاظت کی وجہ سے چھوٹی درختوں کو بغیر جانوروں کی خوراک بنے بڑھنے کا موقع مل جاتا ہے اور جب یہ گل سڑ جاتے ہیں تو مٹی کی زرخیزی میں اضافہ کرتے ہیں۔
ابھی جنگل بسا نہیں۔ نئے درختوں کے والدین نہیں جو اپنے بچوں کے بڑھنے کی رفتار پر قابو کریں، ان کو محفوظ رکھیں اور ایمرجنسی کی صورت میں ان تک شوگر پہنچائیں۔ کسی نئے بنے قدرتی جنگل میں درختوں کی پہلی نسل یتیم بچوں کی طرح بڑھتی ہے۔ اس کی عمر کم ہوتی ہے اور ایک مستحکم سوشل سٹرکچر آتے وقت لگتا ہے۔
پہلی نسل کے والدین اتنی زیادہ عمر نہیں رہتے لیکن دوسری نسل کو وہ تحفظ دے جاتے ہیں جو ان کو سست رفتار دیرپا زندگی گزارنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ ایک لمبا سفر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگلوں کے بارے میں ایک اور عام غلط فہمی ہے کہ اگر ان کو بس پھیلنے دیا جائے تو ہر طرف جھاڑ جھنکار ہو گا۔ ایسے جنگل جو سو برس سے زیادہ کی عمر کے ہیں، وہاں پر معاملہ برعکس ہے۔ گہرے سائے کے سبب جنگلی پھولوں اور جھاڑیوں کو اگنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ درخت کا فرش سبز نہیں، بھورا ہوتا ہے جس میں گرنے والے پتوں کا نرم فرش ہوتا ہے۔ چھوٹے درخت بہت آہستہ اور بالکل سیدھے بڑھتے ہیں۔ ان کی شاخیں چھوٹی اور تنگ ہوتی ہیں۔ عمررسیدہ درختوں نے ان کو ڈھکا ہوتا ہے اور ان کے تنے آسمان سے باتیں کرتے ہیں جیسا کسی بڑے ہال میں لگے ستون۔ ان کے برعکس مصنوعی جنگلوں میں فرش تک پہنچنے والی روشنی کی سبب جھاڑ جھنکار ہوتی ہے۔
قدیم جنگلات میں آسانی سے چلا پھرا جا سکتا ہے۔ فرش پر کہیں کوئی پرانا تنا گرا ہو گا جو کہ سستانے کی جگہ ہو گا۔ اور بوڑھے درختوں کے درمیان بہت کم درخت گرتے ہیں۔ اس وجہ سے پرسکون تفریح کے لئے قدرت کے بہترین اور محفوظ ترین علاقے ایسے جنگل ہیں۔
(جاری ہے)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں