باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 30 دسمبر، 2018

جب زمین طلوع ہوئی




چاند پر کون پہلے پہنچے گا؟ ایک وقت میں ہر ایک کا خیال تھا کہ یہ دوڑ سوویت یونین جیت جائے گا اور اس کی بڑی وجہ سوویت خلائی پروگرام کے چیف ڈیزائنر سرجئی کورولوو تھے۔ پہلا سیٹلائییٹ، خلا میں پہلا جاندار، چاند تک پہلا راکٹ (لونا ون)، چاند کی ڈارک سائیڈ کی پہلی تصویر (لونا تھری)، خلا میں پہلا انسان، یہ سبھی اعزاز سوویت یونین کے حصے میں آئے لیکن چاند کی دوڑ میں اپالو بازی لے گیا۔ اس وقت تک 536 افراد خلا میں جا چکے ہیں لیکن صرف چوبیس خلاباز ایسے ہیں جو لو ارتھ آربٹ سے آگے گئے ہیں یعنی ایک وقت میں پوری زمین دیکھ سکے ہیں۔ ایسا کرنے والا پہلا مشن اپالو 8 تھا جو چاند کے مدار میں پہنچا تھا۔ اس مشن کی پہچان اس تصویر سے ہے جو طلوعِ زمین کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تصویر اس مشن کے خلاباز ولیم اینڈرز نے آج سے ٹھیک پچاس سال پہلے 24 دسمبر 1968 کو کھینچی۔ اس کی کہانی خود ان کی زبانی۔

“جب ہم مشن کیلئے روانہ ہوئے تو ہمارے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ زمین دیکھنے میں کیسی لگتی ہے۔ ہمارا فوکس اس پر تھا کہ زندہ واپس کیسے پہنچا ہے۔ جب بوسٹر راکٹ سے الگ ہو گیا اور ہم اس قابل ہوئے کہ ادھر ادھر دیکھ سکیں تو زمین کی طرف دیکھا۔ یہ میرے لئے نیا تھا۔ خلا میں اوپر یا نیچے کا تصویر نہیں۔ میں نے غور سے دیکھنا شروع کیا تو اینٹارٹیکا کو پہچان لیا۔ اس سے ہوتے ہوئے افریقہ اور پھر فلوریڈا تک پہنچ گیا۔ جب ہم زمین سے دور چلے جاتے ہیں کہ پوری زمین ایک ہی ویو میں نظر آنا شروع ہو جائے تو پھر نہ کوئی انسان نظر آتا ہے، نہ شہر اور ملک۔ خلائی جہاز میں جب آپ ایک طرف سے باہر دیکھیں تو روشن سورج نظر آتا ہے۔ دوسری طرف سے دیکھیں تو تاریکی میں تاروں بھرا آسمان۔ ہر طرف تارے۔ ہماری نظر اکثر زمین پر رہتی۔ ہماری نگاہیں اس کو اس طریقے سے دیکھنے والی پہلی نگاہیں تھیں۔

ہم دو لاکھ چالیس ہزار میل کا سفر کر کے چاند کے قریب پہنچ گئے تھے۔ اس سے صرف ساٹھ میل کی دوری پر۔ اب ہم نے راستہ بدلنا تھا کہ چاند کے مدار میں آ جائیں۔ یہ کام پورا ہونے کے بعد میں نے جب باہر دیکھا تو تاروں بھرے آسمان کی جگہ گھپ اندھیرے نے لے لی تھی۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ یہ سیاہ چیز تو چاند ہے جس نے تاروں کا نظارہ چھپا لیا ہے۔ ہم اب زمین اور چاند کے بیچ میں تھے۔ خلا سیاہ ہے، بالکل سیاہ اور چاند بے رنگ۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ زندگی سے پہلے شاید زمین بھی ایسی ہوتی ہو۔ مشن کی ہدایات کے مطابق اب میں نے چاند کی تصویریں لینا تھیں۔ میں نے وہ لینا شروع کر دیں۔ گڑھا، پھر دوسرا گڑھا، پھر اگلا۔ شروع میں یہ دلچسپ لگا لیکن ایک گھنٹے کے بعد اکتاہٹ سی شروع ہو گئی۔ بس یہی ہے؟ اکتا دینے والا اور بار بار دہرائے جانے والا منظر۔ یہ وہ وقت تھا جب ہم نے پہلی بار زمین کو طلوع ہوتے دیکھا۔ یہ وہ منظر تھا جس کو ہم کبھی نہیں بھول سکتے۔ اس بے رنگ خلا میں وہ نیلی گیند، جو اپنے تمام حسن و رعنائی کے ساتھ جلوہ گر تھی۔ چاند کی بے رنگ سطح کے پس منظر میں اس کا حسن کیا ہی نمایاں تھا۔ کچھ دیر تو ہم جیسے مبہوت دیکھتے ہی رہ گئے۔ بورمین نے کہا کہ تصویر کھینچو۔ میں نے کہا وہ رنگوں والا کیمرہ دو۔ پہلے میں نے، پھر لوول نے اور پھر بورمین نے اس کی تصویریں کھینچیں۔

خلا میں جا کر آپ کا زاویہ نگاہ ہی بدل جاتا ہے۔ ان بے کراں وسعتوں میں یہ زمین بھی تو بس ایک خلائی جہاز ہی ہے۔ ہمارا سورج بھی تو بس باقی ستاروں کی طرح ہی ہے۔ ہم کس قدر چھوٹے ہیں۔ میرے دل میں آیا کہ کاش ساری دنیا کے لوگ یہ دیکھ سکیں۔ میری بیوی ربیکا اور میرے تمام پیارے اسی گیند پر ہی کہیں ہیں۔

واپس محفوظ پہنچنا بھی ایک مرحلہ تھا جو خوش اسلوبی سے طے ہو گیا۔ میرے لئے سب سے جذباتی وقت وہ تھا جب لوگ ہمیں خوش آمدید کہنے کے لئے ہاتھ ہلا رہے تھے، سب کتنے خوش تھے۔ یہ ہم سب کی کامیابی تھی۔ ہماری کھینچی گئی یہ تصویر ہماری پہچان بنی۔ میں جہاں بھی گیا، یورپ، سوویت یونین یا امریکہ میں کسی جگہ۔ اس تصویر کا ہی ذکر ہوا۔ شاید اس لئے کہ اس تصویر میں ہم سب تھے۔ اس نیلی گیند پر۔ اکٹھے۔ یہ تصویر ہم سب کی تھی۔

لوگ جب مجھ سے اس وقت کا پوچھتے ہیں تو وہ مجھے اچھی طرح یاد ہے لیکن مجھے مایوسی ہے۔ میرا خیال تھا کہ شاید دیکھنے کا یہ نقطہ نظر ہمیں اکٹھا کر دے لیکن ویسا نہیں ہوا جو میں نے سوچا تھا۔ شاید ہر کوئی وہ محسوس ہی نہیں کر سکتا جو اس مشن میں ہم نے محسوس کیا۔ لوگ آج مریخ پر جانے کی بات کرتے ہیں۔ میری بھی خواہش ہے کہ ہم نئی دنیائیں سر کریں۔ لیکن اس سے زیادہ یہ خواہش ہے کہ ایسا ہم امریکی، چینی، روسی یا انڈین وغیرہ کے طور پر نہ کریں۔ اس نیلی گیند کے باسی کے طور پر کریں۔ اس تصویر میں میرا کوئی کمال نہیں۔ میں تو صرف ٹھیک وقت پر ٹھیک جگہ پر تھا۔ ہماری زمین تو ایسی ہی ہے۔ جب ہم نے اسے نہیں دیکھا تھا، یہ نظارہ تو اس وقت بھی اسی طرح ہی تھا۔”

پہلی تصویر ارتھ رائز کی جو اپالو 8 نے پچاس سال پہلے کھینچی۔ اس سے اگلے سال اپالو 11 ان چھ مشنز میں سے پہلا بن گیا جب انسان نے چاند پر قدم رکھا۔ دوسری تصویر 2015 کو لونر ری کون آربٹر نے لی ہے۔




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں