باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 28 دسمبر، 2018

نئے افق کے نئے قدم ۔ نیا سال، الٹیما تھیولی اور خلا میں ڈی این اے



سپیس سائنس میں 2015 کا ایک اہم ترین واقعہ نیو ہورائزن مشن کا پلوٹو کے قریب سے گزرنا تھا۔ (تفصیل نیچے دئے گئے لنک میں)۔ مگر اس کا مشن مکمل نہیں ہوا تھا۔ پچھلے کچھ سال سے یہ اس سے بھی زیادہ دور ایک جسم کی طرف بڑھ رہا ہے جو اربوں سال سے جما ہوا ہے۔ یہ برفیلی دنیا 2014MU69۔ ٹیم نے اس کا نام الٹیما تھیول رکھا ہے۔ پلان کے مطابق یہ پہلی جنوری 2019 کو یہ اس کے قریب سے گزرے گا۔ اس کا حجم کسی ایک شہر جتنا ہے اور ہم سے چھ ارب ساٹھ کروڑ میل کی دوری پر ہے۔

الٹیما تھیولی کیپوپر بیلٹ میں ہے جو پلوٹو کے مدار سے بہت آگے ہے۔ الٹیما تھیولی کے معنی ہیں “معلوم دنیا سے آگے”۔ اگست میں نیو ہورائزن نے اس کی لی گئی سب سے پہلی تصویر بھیجی تھی جو بس کسی نقطے کی طرح تھی۔ اس کے بعد سے یہ مشن چودہ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے اس کی طرف بڑھ رہا ہے یعنی فی گھنٹا پچاس ہزار کلومیٹر کی رفتار سے۔ یہ اتنی تیز ہے کہ الٹیما تھیولی کے پاس پہنچ کر یہ کم نہیں ہو گی اور پلوٹو کی طرح یہ بس اس کے قریب سے گزرے گا۔ یہ آسان نہیں۔ ابھی ہم اس کے مدار کو بھی بہت اچھی طرح نہیں جانتے، اس لئے یہ نشانہ دشوار کام رہا۔ ماہرینِ فلکیات کو اس کا مسلسل مشاہدہ کرتے رہنا پڑا۔ چونکہ یہ تاروں بھرے آسمان میں ایک چھوٹا سا تاریک نقطہ تھا اس لئے اس کا پیچھا کرتے رہنا آسان نہ تھا۔ ہمیں ابھی یہ بھی پتہ نہیں کہ یہ ایک جسم ہے یا دو اجسام جو ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔

اس میں مزید پیچیدگی یہ کہ نیو ہورائزن اس کے بہت ہی قریب جانے کا پلان کر رہا ہے۔ صرف ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کے فاصلے تک (یہ پلوٹو کے اس قدر قریب نہیں گیا تھا)۔ اس کا مطلب یہ کہ غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔

الٹیمما ٹھیولی کا یہ دورہ ایک چار ارب سال پرانے اور اچھی طرح سے محفوظ فاسل کے پاس جانا ہو گا۔ ایک قدیم پتھر جو اس وقت بنا جب ہمارا نظامِ شمسی بن رہا تھا اور جم کر ٹھوس ہو گیا۔ صفر ڈگری کیلون سے صرف چند ڈگری اوپر کے درجہ حرارت پر۔ یعنی کہ یہ سفر ایک طرح سے ہمارے ماضی کا سفر تھا۔ جب نظامِ شمسی بن رہا تھا تو ہمارا پڑوس کیسا تھا۔ ہمارا پلان ہے کہ ہم الٹیما تھیولی کی شکل اور سطح کے فیچر دیکھیں گے، یہ دیکھیں گے کہ اس کے قریب ہالے موجود ہیں اور سراغ ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے کہ یہ بنا کس طریقے سے۔ اس کی فضا کو بھی دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ اگرچہ توقع یہ ہے کہ یہ نہیں ملے گی۔ پلوٹو کے بعد کیوپر بیلٹ کے کسی بھی جسم کا یہ پہلا مشاہدہ ہے۔ ہمیں 1992 تک کیوپر بیلٹ کی موجودگی کا علم بھی نہیں تھا۔ اب ہمیں پتہ ہے کہ یہ ہمارے نظامِ شمسی کے ماضی کے رازوں سے بھری تجوری ہے۔

یہ قدیم چٹانیں شاید اس سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوں جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ دو ہفتے قبل سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے اعلان کیا کہ وہ زمین سے باہر کے ماحول میں ڈی ان اے کا شوگر کمپوننٹ تیار کر چکے ہیں۔ (اس پر خبر نیچے دئے گئے لنک سے)۔ یعنی یہ ممکن ہے کہ ڈی این اے کو تشکیل دینے والے کچھ بلڈنگ بلاک زمین سے باہر بنے ہوں۔ یہ نیا خیال نہیں۔ پچھلی کچھ دہائیوں میں کچھ شہابیوں میں ہم دوسرے شوگر ڈھونڈ چکے ہیں۔ اس وجہ سے یہ خیال ہے کہ کچھ اہم شوگر خلائی پتھروں سے آئے ہوں۔ یہ شوگر ان شہابیوں میں کیسے؟ اس کا ہمیں ابھی بالکل علم نہیں۔ اس وقت سے محققین ان حالات میں ایسے کمپاوٗںڈ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ستاروں کے درمیان کی خلا کے ہیں۔ اس عمل کا نام الٹرا وائلٹ اِرریڈی ایشن ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہ عمل ہے جو ہم عام طور پر چیزوں کو جراثیم سے پاک کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

سائنسدانوں کی اس ٹیم نے زندگی کو ختم کرنے والے اس عمل کو آرگینک مالیوکیول بنانے کے عمل میں استعمال کیا اور ان حالات میں جو خود زندگی کے لئے ناممکن ہیں۔ انہوں نے جمے ہوئے پانی اور میتھانول کے مکسچر سے شروع کیا جو منفی 261 پر تھا۔ اس طرح کے مادے کا بادل جو ستاروں کے درمیان کی خلا میں ہوتا ہے۔ اس پر الٹرا وائلٹ شعاعیں ڈالی گئیں، ویسے جیسا ہمارے سورج سے ان پتھروں پر اربوں سال پہلے پہنچتی تھیں۔ روشنی اور اس برف کے ملاپ نے کیمیائی ری ایکشن شروع کیا اور اس سے بننے والی کمپاوٗںڈز میں مختلف شوگر بھی تھے۔ ایسے کمپاوٗںڈ پہلے بھی بن چکے تھے لیکن اس دفعہ سائنسدانوں نے ٹو ڈی آکسی رائیبوز بھی دریافت کر لیا۔ یہ ڈی آکسی شوگر ہے جو ڈی این اے کا حصہ ہے۔ اس کے ساتھ وہ کمپاوٗنڈ بھی ملے جو ڈی آکسی شوگرز سے نکلتے ہیں اور ہمیں ان شہابیوں پر ملے ہیں۔

اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان شہابیوں پر ڈی آکسی شوگر موجود تھے جو زمین پر پہنچے۔ صرف یہ کہ ایسا ہونا ناممکن نہی۔ خلا کے مردہ ماحول میں بھی نامیاتی مادوں کے بلڈنگ بلاک بننا ممکن ہے اور زمین پر زندگی کے ابتدائی مادے کا کچھ حصہ، وہ شوگر جو ڈی این اے کا حصہ ہیں،، انہوں نے کائنات کے بالکل مردہ علاقے میں ترتیب پائی ہو۔ شہبابیوں، دمدار ستاروں اور خلائی دھول میں۔ وہ جگہیں جن کا ہم زندگی سے کوئی تعلق نہیں سمجھتے۔ زمین کے اس پرتشدد ماضی میں جب جب نوزائیدہ زمین ہر طرف پر شہابیوں کی بمباری ہو رہی تھی، اس وقت اس کائناتی ڈیپ فریزر میں بننے والا مادہ بھی زمین پر پہنچا ہو، جس نے زندگی کی ابتدا میں مدد کی ہو۔

لیکن ہمیں براہِ راست شواہد چاہیئں۔ سائنسدان اب اس کے لئے شہبابیوں میں ڈی آکسی شوگرز کا مشاہدہ کریں گے اور ساتھ کیوپر بیلٹ کی اس رازوں کی تجوری کا۔ اس نئے افق پر یہ نیا قدم اگلے چند روز میں متوقع ہے۔ یہ چھوٹا سیارہ ہبل ٹیلی سکوپ نے 2014 میں دریافت کیا تھا۔ یعنی نیوہورائزن جب نیپچون کے قریب تھا تو ہمیں الٹیما تھیولی کے ہونے کا علم ہوا تھا اور اس میں دلچسپی کی وجہ سے پلوٹو کے بعد اس کا رخ موڑا گیا۔ ہمیں امید ہے کہ پہلی جنوری 2019 کو شام پانچ بجے پتہ لگے گا کہ یہ مشن کامیاب رہا کہ نہیں۔ اس کی کامیابی یا ناکامی کا اعلان رات ساڑھے نو بجے جبکہ اگلے دو روز میں ابتدائی سائنسی ڈیٹا پبلک کیا جائے گا۔ اگر سب ٹھیک رہا تو اس سے اگلے ہفتوں میں ہمارے پاس اس برفیلی دنیا کی اچھی تصویریں اور حاصل کردہ ڈیٹا موصول ہو جائے گا۔ اس پر مشن کے سربراہ سٹرن کا تبصرہ

It’s terra incognita. It is pure exploration. We’ll just see what it’s all about — if it’s got rings, if it’s got a swarm of satellites.


نیو ہورائزن مشن کے پلوٹو کے چپٹر پر
https://waharaposts.blogspot.com/2018/09/blog-post_149.html

ڈی این اے کی شوگر تیار کرنے پر
https://www.sciencenews.org/article/sugar-makes-dna-could-be-made-space

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں