یورپی کلاسیکی رقص کا اہم حصہ وہ چھلانگ ہے جہاں پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ رقاصہ ہوا میں معلق ہے، اس دوران چہرہ جذبات سے عاری۔ اس کے مقابلے میں انڈین رقص میں پاؤں زمین سے جڑے ہوئے۔ سر، دست و پا کی تیز حرکات اور چہرے کے بدلتے تاثرات۔ ایک ہی رقص میں شکتی اور شیوا کی عکاسی۔ ایک ہی روٹین میں اس طرح کی متضاد دوئی یورپی بیلے کا حصہ نہیں بن سکتی۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی کا آسٹریا موسیقاروں کا گڑھ تھا۔ موزارٹ، ہیڈن، بیتھوون، شوبرٹ ویانا سے تعلق رکھتے تھے۔ طرح طرح کی دُھنیں تخلیق ہوئیں۔ لیکن اس میں کوئی بھی ایسی جگہ نہیں جہاں پر ٹیون سے باہر گئے ہوں، لمبے وقفے آتے ہوں، اونچی اور نیچی ہوتی بیٹ ہو یا پھر سانس باہر نکال کر کچھ فیچر دیا گیا ہو۔ یہ سب گاگاکو کا حصہ تھا جو جاپانی شاہی موسیقی کا حصہ تھا۔ یورپی موسیقار اپنی تمام تر تخلیقی صلاحیت کے باوجود ایک دائرے کے اندر اندر رہے۔
تخلیقی صلاحیت کلچر اور سوشل پیرائے سے تشکیل پاتی ہے۔
مغلیہ باغ فرانس کے باغات جیسے نہیں۔ ایرانی قالین، الحمرا محل کی چھت، استنبول کی مسجدوں کے آرکیٹیکچر میں سمٹری واضح ہے۔ زین باغات یا یورپ کا روکوکو آرٹ میں سمٹری غائب۔ ماں کی لوری سے ناول اور سٹیج ڈرامے تک تخلیق اور کلچر کا رقص باہم ہے۔ تخلیق کلچر کے پیرائے میں اور کلچر میں ہوتی تبدیلیاں نئی تخلیقات سے۔
یہ صرف آرٹ تک نہیں، سائنس بھی اسی طرح ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنی سائنس میں نہ صرف آگے تھا بلکہ بہت آگے رہ سکتا تھا۔ ہائیزنبرگ جیسے سائنسدان اس کے پاس تھے لیکن نسل پرستی کی پالیسی نے آئن سٹائن، ٹیلر، ژیلارڈ سمیت کئی سائنسدان کھو دئے جنہوں نے وہ ہتھیار بنانے میں اتحادی فوج کی مدد کی جس نے جنگ کا پانسہ بدلا۔ یہاں تک کہ جرمن قوم پرست سائنسدانوں نے آئن سٹائن کے خیالات کو ہی غیر سنجیدہ قرار دے دیا۔ نوبل انعام یافتہ جرمن سائنسدان فلپ لینارڈ کا کہنا تھا کہ آئن سٹائن یہودی سائنس پھیلا رہا ہے تا کہ جرمنوں کو گمراہ کیا جائے۔ نازی فلٹر سے چھانے گئے جرمن سائنسی سچ مختلف تھے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹرانسسٹر امریکہ کی بیل لیب میں بن کر ریڈیو کا حصہ کیوں بنا اور دو سابق نازی سائنسدانوں کا فرانس میں ویسٹنگ ہاؤس میں بنا ٹرانسسٹرون کیوں ردی کی ٹوکری کی زینت؟ اس کی وجہ بھی کچھ ایسی ہی ہے۔
دنیا میں جہاں بڑے تجربات ہوں، وہاں پر فرق ممالک ملکر حصہ لیتے ہیں اور فرق پس منظر رکھنے والے مل جل کر کام کر کرتے ہیں۔ ایک ریسرچ پراجیکٹ میں جب ٹیم بنتی ہے تو اس چیز کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اس میں خیالات کا تنوع ہو۔ دنیا میں تاریخی طور پر بھی وہ معاشرے اور وہ اقوام آگے بڑھیں ہیں جہاں پر متفرق خیالات سے مل کر آگے بڑھا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر کسی کی سوچ محدود ہے اور اپنے ہی پس منظر سے تشکیل شدہ جس کی وجہ سے ایک جیسے لوگوں کی سوچ کا دائرہ محدود رہ جاتا ہے۔ کئی بار اونچی جست لگا کر فضا میں اڑنا ہوتا ہے، کئی بار چہرے کو گھما کر ایک نیا تاثر۔ ایک جیسے لوگ ایسا کر ہی نہیں سکتے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں