باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 28 فروری، 2020

جین سے بہتری؟ ۔ جین (29)


بیسویں صدی کے آخر میں ایک سٹڈی 5HTTLRP جین پر ہوئی۔ یہ ایک مالیکیول بناتی ہے جو چند خاص نیورونز کے درمیان سگنلنگ کو کنٹرول کرتا ہے۔ اور اس کا تعلق ذہنی دباوٗ کے ریسپانس  سے ہے۔ یہ جین دو طرح کی ہے۔ چھوٹی اور لمبی۔ چالیس فیصد آبادی میں اس کا چھوٹا ویری انٹ ہے۔ اس کی وجہ سے پروٹین پیدا ہونے کی مقدار خاصی کم ہوتی ہے۔ جن میں یہ ویری انٹ ہے۔ اس کی وجہ سے ڈیپریشن، نشہ، بے چینی، ٹراما اور ہائی رسک رویے کے امکان کا زیادہ ہونا ہے۔ خودکشی کے امکان میں اضافہ ہے۔ 2010 میں امریکہ کی ریاست جارجیا میں ایک غریب ترین علاقے میں رہنے والوں پر ایک پراجیکٹ سآف کے تحت ایک سٹڈی کی گئی۔ غربت، جرائم، منشیات اور تعلیم کی کمی اس علاقے کا نشان تھے۔ چھ سو خاندانوں کو دو گروپس میں تقسیم کیا۔ ایک گروپ کیلئے سات ہفتے کیلئے آگاہی، کونسلنگ اور نشے چھوڑنے کی ترغیب کے لئے سوشل پروگرام کئے گئے۔ دوسرا کنٹرول گروپ تھا۔ ان سب کی اس جین کو سیکونس کیا گیا۔

اس کا پہلا نتیجہ تو وہی تھا جس کا اندازہ تھا۔ جن بچوں میں اس کا چھوٹا ویری انٹ تھا، ان میں ہائی رسک رویے ۔۔۔ شراب نوشی، منشیات کا استعمال وغیرہ ۔۔۔ کا تناسب دگنا تھا۔ یہ پہلے کی سٹڈیز کی تصدیق کرتا تھا۔ لیکن دوسرا نتیجہ ایک اہم چیز اجاگر کرتا تھا۔

جن لوگوں پر سات ہفتے کے پروگرام کا سب سے زیادہ اثر ہوا، وہ تھے جن کی جین میں چھوٹا ویری انٹ تھا۔

یہی تجربہ ایک اور سٹڈی میں دہرایا گیا جو یتیم بچوں پر کی گئی تھی اور اس نے بھی یہی نتیجہ دیا۔ جو لوگ سب سے زیادہ متاثر تھے، وہی سوشل پروگرام سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتے تھے۔

ان دونوں سٹڈیز سے لگتا ہے کہ چھوٹا ویری انٹ ایک نفسیاتی حسیاسیت کا ایک سٹریس سینسر بناتا ہے اور اس کا حامل ماحول سے جلد اثر لیتا ہے۔ مثبت بھی اور منفی بھی۔ جو لوگ نازک ہیں، ان پر جلد اثرانداز ہوا جا سکتا ہے۔ لچک کی اساس بھی جینیاتی ہے۔ کچھ لوگ مشکلات برداشت کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ان پر مداخلت بھی زیادہ کارگر نہیں ہوتی۔ جو حساس ہیں، وہ ماحول کے مطابق تبدیل بھی جلد ہو سکتے ہیں۔

لچک کی جین کا آئیڈیا سوشل انجنیرنگ میں داخل ہو رہا ہے۔ 2014 میں سائیکولوجسٹ جے بلسکی نے لکھا، “سوشل پروگرام بہت محدود وسائل رکھتے ہیں۔ کیا ہمیں ان بچوں کو ٹارگٹ کرنا چاہیے جو جن کے لئے یہ زیادہ فائدہ مند ہوں گے؟ میرے لئے تو اس کا جواب ہاں میں ہے۔ اگر ہمیں اپنے سوشل پروگرام موثر کرنے ہیں، زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرنا ہے تو ہمیں ٹھیک انتخاب کرنے ہوں گے۔ ان نازک پھولوں کی حفاظت کرنا ہو گی جن کو توجہ کی زیادہ ضرورت ہے”۔

جے بلسکی کا آئیڈیا اچھا ہے اور اس کی مدد سے موثر پروگرام تشکیل دئے جا سکتے ہیں۔ اس پر عملدرآمد کر کے زیادہ بچوں کی مدد کی جا سکتی ہے؟ نازک پھول بچائے جا سکتے ہیں۔ اور اس کا مطلب کیا ہے؟ بچوں کی جینوٹائپنگ۔ جین کی وجہ سے سلوک میں تفریق۔ اور جینوٹائپ کی بنیاد پر سوشل انجینرنگ؟ ہم جین کی مدد سے حساس شخص کو پہچان سکتے ہیں تو کیا جرائم، تشدد اور دوسرے چیزوں کے رجحان کی تمیز بھی کر لیں گے؟ یونی پولر ڈیپریشن اور بائی پولر شخصیت کی؟ اب اخلاقی مثلث میں غیرمعمولی تکلیف کی تعریف کیا ہو گی؟ اور کونسی مداخلت ٹھیک ہو گی؟

اور سب سے بڑھ کر ۔۔۔ نارمل کیا ہے؟ کیا والدین نارمل کا انتخاب کر سکیں گے؟ اور پھر ۔۔۔  جیسے نفسیات کے ہائزنبرگ کے اصول کی طرح ۔۔۔ مداخلت نارمل کی تعریف کی وسعت کو کم سے کم کرتی جائے گی؟ اس کا مطلب کیا ہے؟

اگرچہ ہم اس سے نظر چراتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے لیکن ہم اپنے جیسی جینز کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو ہم سا نہیں ہوتا، اس سے لڑتے ہیں۔ گروہ بندی کرتے ہیں۔ “گورا ایسا ہے، کالا ویسا ہے، پٹھان ایسے ہیں، پنجابی ویسے ہیں۔ ہمارے آباء ان کے آباء سے افضل ہیں۔ اس پوری دنیا میں ہم سا کوئی نہیں”۔ قوم پرستی، نسل پرستی یہی تو ہے۔ “وہ پستہ قد ہے۔ اس کی آنکھیں چھوٹی ہیں۔ کتنا شرمیلا ہے۔ بہت ہی غصیلا ہے۔ وہ تو دیوانہ ہے”۔ ہم سب میں فرق بہت بہت اور بہت ہی کم ہیں لیکن ہم دوسروں کو انہی معمولی فرق کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں۔ ہم ایبنارمل کی تعریف نارمل سے کرتے ہیں۔ ایبنارمل کو چھانٹنا نارمل کی تعریف مزید سکیڑ سکتا ہے۔ صرف شکل و صورت ہی نہیں، مزاج، خیالات، سوچ و فکر میں تنوع کو برداشت کرنا ہمارے لئے آسان نہیں۔ گروہ بندی اور قبائلیت ہماری سرشت میں گہری رچی بسی ہے۔

پچھلی صدی کی تاریخ نے ہمیں جینیاتی فٹنس کے تعین کے خطرات کا سبق سکھایا۔ یہ ہم طے کرتے ہیں کہ کون ہماری مثلث میں فٹ ہوتا ہے اور کون اس سے باہر ہے۔اب اگلا سوال یہ ہے کہ اس وقت کیا ہو گا جب یہ انتخاب فرد کے ہاتھ میں آ جائے گا؟ خوفناک امراض اور معذوری کا خاتمہ، افرادی اور اجتماعی خواہشات ۔۔  فرد اور معاشرے کے ساتھ پسِ منظر میں تیسرا بڑا خاموش کردار ہماری جینز کا ہے، جو خود ہماری خواہشات کو کنٹرول کرتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب واٹسن سے پوچھا گیا تھا کہ جب ہم جینوم کو پڑھ لیں گے اور اس میں ترمیم کے قابل ہو جائیں گے تو کیا ہو گا۔ انہوں نے جواب دیا تھا کہ “مجھے توقع ہے کہ ہم تھوڑے سے بہتر انسان بن جائیں گے”۔

ہم نے جینوم کو پڑھ لیا۔ اس کی پیشگوئی کی بنیاد پر انتخاب کرنے لگے ہیں۔ جین تھراپی کا استعمال نوے کی دہائی میں کیا گیا تھا اور اب اس ٹیکنالوجی کی اگلی دو جنریشنز آ گئی ہیں۔ اب انسانوں کی جرم لائن تک میں ایڈٹنگ کر کے ٹھیک ٹھیک ترمیم کر لینے کی ٹیکنالوجی بھی حاصل کر لی گئی ہے۔

اس میں اہم موڑ دودھ اور دہی بنانے والے ادارے میں کام کرنے والے محققین کی اکیسویں صدی کی ایک اہم دریافت تھی۔ یہ دریافت جراثیم کی آپس کی جنگوں میں استعمال ہونے والے ہتھیار تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(جاری ہے)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں