باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 28 فروری، 2020

جین کا انتخاب ۔ جین (28)

اپریل 1990 میں ایک نئی تکنیک کا اعلان جینیات کی سائنس میں دھماکہ خیز واقعہ تھا۔ یہ حمل سے قبل ہی جینیاتی تشخیص کی ٹیکنالوجی تھی۔

جب ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو اس کے ایمبریو کو عام طور پر چند روز کے لئے انکوبیٹر میں رکھا جاتا ہے اور پھر ماں کے جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ غیرمتنازعہ ہے، کوئی بھی اسے اختیار کر سکتا ہے اور دنیا بھر میں رائج ہے۔ پچھلے چالیس برس میں دنیا بھر میں اسی لاکھ سے زیادہ بچے اس طرح پیدا ہو چکے ہیں۔ کیا ان دنوں کے درمیان اس کا جینیاتی ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے؟

یہ تکنیک انسانی ایمبریولوجی کے دوران ایک عجیب مظہر کو استعمال کرتی ہے۔ ایک خلیہ تقسیم ہوتا ہے۔ تین دنوں میں آٹھ خلیے اور پھر سولہ۔ حیران کن طور پر اگر اس میں سے کوئی خلیے نکال بھی لئے جائیں تو باقی خلیے تقسیم ہو کر اس خلا کو پُر کر دیتے یہں اور یہ اس طرح نارمل طریقے سے بڑھتا رہتا ہے جیسا کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ اپنی تاریخ کے ابتدائی کچھ حصے میں ہم ویسے ہوتے ہیں جیسے چھپکلی کی دم۔ ایک چوتھائی کاٹ بھی دیا جائے تو مکمل طور پر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔

اس ابتدائی سٹیج پر یہ مظہر ایمبریو کی بائیوپسی ممکن کرتا ہے۔ اس میں سے کچھ خلیے نکالے جا سکتے ہیں اور ان کے جینیاتی ٹیسٹ کئے جا سکتے ہیں۔ جب ٹیسٹ مکمل ہو جائیں تو فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کو ماں کے جسم میں داخل کیا جائے یا نہیں۔

برطانیہ میں دو جوڑوں نے اس کو پہلی بار استعمال کیا۔ ایک کے خاندان میں شدید دماغی کمزوری کی تاریخ تھی۔ دوسرے میں دفاعی امییونولوجیکل سنڈروم کی۔ دونوں لاعلاج مرض تھے جو صرف لڑکوں میں ظاہر ہو سکتے تھے۔ انہوں نے لڑکی کا انتخاب کرنا تھا تا کہ یہ صحت مند بچے پیدا ہوں۔ یہ طریقہ دونوں نے اختیار کیا۔ دونوں کے پاس جڑواں بچیوں کی پیدائش ہوئی جو کہ صحت مند تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے اخلاقی مضمرات اس قدر چکرا دینے والے تھے کہ جلد ہی بہت سے ممالک میں اس طریقے پر بہت سی پابندیاں لگا دی گئی۔ ایسا کرنے والے ممالک میں سب سے پہلے جرمنی اور آسٹریا تھے جو بیسویں صدی میں جین کے نام پر قتل و غارت کا سیاہ دور دیکھ چکے تھے۔

منفی یوجینکس کا پراجیکٹ انسانی تاریخ کا شرمناک باب ہے اور ہمیں رُک کر سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ لیکن نازی جرمنی سے بھی کہیں زیادہ بڑے زخم کہیں اور نظر آتے ہیں۔ یوجینکس کے لئے کسی شقی القلب آمر کی ضرورت نہیں۔ انڈیا اور چین میں ایک کروڑ لڑکیاں غائب ہیں جو بلوغت تک نہیں پہنچیں۔ بچپن میں قتل، اسقاطِ حمل، بچیوں سے عدم توجہی ۔۔۔ جو بھی وجہ ہو، حقیقت یہ ہے کہ فطرت تو لڑکے اور لڑکیوں کے تناسب میں دنیا بھر میں تفریق نہیں کرتی لیکن آزاد شہریوں کو اپنی مرضی پر چھوڑ دیا جائے تو وہ بدترین یوجینکس خود ہی کرنے کے اہل ہیں۔

اور اگر انتخاب کی ٹیکنالوجی ہی مل جائے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وقت یہ طریقہ کئی مونوجینیٹک بیماریوں کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسی بیماریوں جو ایک جین کی وجہ سے ہوں اور جن کے ہونے کا امکان سو فیصد ہو۔ لیکن ایسی کوئی ٹیکنیکل وجہ نہیں کہ اس کا دائرہ وسیع نہ کیا جا سکے۔ پیدائش سے پہلے، حمل سے بھی پہلے ہم جینیاتی معلومات حاصل کر سکیں۔ اور اگر جان لیں تو فیصلہ کیسے اور کس بنیاد پر کریں گے؟

کبھی نہ کبھی، چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے ہم جین مینجمنٹ کی دنیا میں گھسیٹ لئے جائیں گے۔ اور یہاں پر سوال اور انتخاب آسان انتخاب نہیں ہو گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی تک تین ان کہے اصول جینیاتی تشخیص اور فیصلوں میں راہنمائی کرتے آئے ہیں۔ پہلا یہ کہ جینیاتی ویری انٹ کی وجہ سے امکان سو فیصد کے قریب ہو۔ جیسا کہ ڈاون سنڈروم یا سسٹک فائبروسس وغیرہ۔ دوسرا یہ کہ اس سے ہونے والی بیماری سے تکلیف غیرمعمولی ہو۔ تیسرا یہ کہ جو طریقہ اپنایا جائے، وہ قابلِ قبول ہو۔ معذور بچے کو پیدا ہونے کے گلا گھونٹ کر ہلاک کر دینا قابلِ قبول نہیں سمجھا جاتا، چھاتی کے کینسر کی جین کا پتا لگ جانے کے بعد دوا کا استعمال یا سرجری کروانے پر کسی کو اعتراض نہیں۔

مثلث کی یہ تین لکیریں اخلاقی حدود ہیں جن کو پار کرنے کو کوئی بھی کلچر تیار نہیں ہو گا۔ مستقبل میں کینسر ہو جانے کا امکان دس فیصد نکلنے پر ایمبریو کو ختم کر دینا، ریاست کی طرف سے جینیاتی ٹیسٹ کے نتیجے میں کوئی میڈیکل پروسیجر کروانے پر ریاست کا مجبور کئے جانا ان حدود کو پار کرنے کی مثالیں کہی جا سکتی ہیں جس پر ہر کوئی اتفاق کر سکتا ہے۔

حدود کی یہ مثلث ایک اچھی گائیڈ لائن ہو سکتی ہے۔ زیادہ پینیٹرنیس والی جینز، غیرمعمولی تکلیف اور بغیر جبر کے قابلِ قبول حل۔

لیکن غیرمعمولی تکلیف کیا ہے؟ نارمل اور ایبنارمل کی تفریق کیا ہے؟ کونسا طریقہ کس صورت میں قابلِ قبول ہے؟ یاد رہے کہ یہ پتھر کی لکیریں نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(جاری ہے)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں