باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 28 فروری، 2020

جین میں ترمیم ۔ جین (30)


ہماری زمین پر اربوں سال سے ایک جنگ لڑی جا رہی ہے جس سے کھربوں اموات ہر روز ہو رہی ہیں۔ اس قدیم خونی جنگ کے فریقین کامیابی کے لئے کئی انوکھے ہتھیار ایجاد کر چکے ہیں۔ ایسا نہیں کرتے تو زندہ نہ بچتے۔ ان کی آپس کی یہ دشمنی اب ان کی جینز پر نقش ہے۔ یہ جنگ وائرس اور بیکٹیریا کے درمیان ہے۔ وائرس بیکٹیریا پر حملہ کر کے انہیں قابو کرنا چاہتے ہیں، بیکٹیریا کو اپنی جان بچانی ہے۔ وائرس ایسے جینیاتی مکینزم بنا چکے ہیں جن سے بیکٹیریا پر حملہ کامیاب ہو سکے۔ بیکٹیریا وہ جین بنا چکے ہیں جو ان کا مقابلہ کر سکیں۔ ایک وائرس جب بیکٹیریا میں داخل ہو جائے تو اس کے مقابلے کے لئے پاس چند ہی منٹ ہیں۔

فرانس سے تعلق رکنے والے سائنسدانوں فلپ ہورواتھ اور رڈولف برانگو نے ڈنمارک کی فوڈ کمپنی ڈینسکو کے ملازم تھے۔ ان کی تحقیق دہی اور پنیر بنانے والے بیکٹیریا پر تھی۔ انہوں نے 2006 میں دریافت کیا کہ کچھ بیکٹیریل انواع ایک سسٹم بنا چکی ہیں جو حملہ آور وائرس کے جینوم کو بڑے طریقے سے کاٹ کر ان کو مفلوج کر دیتا ہے۔ یہ سسٹم مالیکیولر تلوار کی طرح ہے۔ یہ وائرس کو پہچان کر ٹھیک ٹھیک جگہ پر ضرب لگاتا ہے۔

بیکٹیریا کے اس دفاعی نظام کے دو اہم اجزاء تھے۔ پہلا تلاش کرنے والا۔ یہ ایک آر این اے تھا جو وائرل ڈی این اے کو پہچانتا تھا۔ اس کا طریقہ بائنڈنگ کا ہے۔ یعنی کہ یہ حملہ آور کے ڈی این اے کا معکوس ہے۔ جیسے آپ نے اپنے دشمن کی تصویر مستقل طور پر اٹھا رکھی ہو اور یہ اس کے جینوم میں کھدی ہوئی ہے۔ اگر یہ وائرس کے ڈی این اے میں فٹ ہو گیا تو پہچان لیا گیا کہ یہ حملہ آور ہے۔

اس کا دوسرا حصہ مہلک زخم لگانے والا پروٹین ہے۔ یہ پروٹین Cas9 ہے۔ پہچاننے والا اور مارنے والا مل کر کام کرتے ہیں۔ یہ پروٹین صرف اس وقت حملہ کرتی ہے جب پہچان ہو جائے۔ جاسوس اور قاتل کی یہ ٹیم بیکٹیریا کا دفاع کرتی ہیں۔

ایمینوئل چارپنٹئے ایک بیکٹیریولوجسٹ ہیں۔ ان کی ملاقات جینیفر ڈاوڈنا سے 2011 میں ہونے والی مائیکروبائیولوجی کی کانفرنس میں ہوئی۔ دونوں کی دلچسپی بیکٹیریا کے دفاعی نظام میں تھی۔ انہوں نے ملکر اس پر کام شروع کیا۔ 2012 میں انہیں احساس ہوا کہ یہ سسٹم پروگرام کیا جا سکتا ہے۔ بیکٹیریا وائرس کی تصویر لے کر پھرتا ہے۔ اگر یہ تصویر بدل دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ کسی اور جینوم کو کاٹ دے۔ اور یہ ضروری نہیں وائرس کا ہو، کوئی بھی اور ہو سکتا ہے۔ ٹھیک جگہ سے جین کو ڈھونڈ کر کاٹا جا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جین میں اپنی مرضی کی جگہ پر کٹ؟؟ یہ کسی بھی ماہرِ جینیات کا خواب تھا۔ میوٹیشن رینڈم ہوتی ہے۔ آپ ایکسرے یا کاسمک رہے کو یہ نہیں بتا سکتے کہ سسٹک فائبروسس کی جین کو میوٹیٹ کر دیا جائے۔ لیکن ڈاوڈنا اور چارپنٹئے نے اس کا طریقہ دریافت کر لیا تھا۔ اپنی مرضی کی جگہ سے جین کو کاٹنے کا۔

اس سسٹم کو مزید آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ جب ایک جین کٹ جاتی ہے تو ڈی این اے کے سرے کھل جاتے ہیں جیسے دھاگے کو کاٹنے سے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جین نے اس کی مرمت کرنی ہے تا کہ انفارمیشن ضائع نہ ہو۔ جینوم انفارمیشن کو کنزرو رکھنے کے بارے میں بہت حساس ہے۔ عام طور پر اس طرح کھل جانے والی جین اپنی انفارمیشن اپنی بیک اپ کاپی سے حاصل کرتی ہے۔ اس وقت اگر اس خلیے میں بہت سا خارجی ڈی این اے داخل کر گیا ہو تو جین غلطی سے اس کی کاپی اٹھا لے گی، اس کو لگا کر اس کٹ کو بند کر لے گی اور یوں دھوکے سے اپنی مرضی کا ڈی این اے خلیے کا مستقل حصہ بن جائے گا۔ جیسے کسی کتاب سے کسی حصے کو مٹا کر اپنی مرضی کا متن لکھ دیا جائے۔

مائیکروب کے ڈیفنس سسٹم پر یہ پیپر “سائنس” میگیزین میں 2012 میں شائع ہوا اور اس نے فوری طور پر بائیولوجسٹس کی توجہ حاصل کر لی۔ تین سال بعد ان دونوں نے نوبل انعام جیت لیا اور اس پر ہونے والا کام اب بہت آگے بڑھ چکا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آئن سٹائن 1939 میں پرنسٹن یونیورسٹی میں بیٹھے غور کر رہے تھے کہ ایک انتہائی طاقتور ہتھیار کو بنانے کے اجزاء تو مکمل ہیں۔ یورینئم کو الگ کرنا، نیوکلئیر فشن، چین ری ایکشن، ری ایکشن کو بفر کرنا اور اس کو کنٹرول کرنا۔ صرف اس کو سیکونس کئے جانے کی ضرورت ہے۔ اور یہ کرنے کا مطلب ایٹم بم ہے۔

سٹینفورڈ میں 1972 میں پال برگ نے خود کو اس مقام پر پایا تھا۔ جینز کو کاٹنا، الگ جانداروں کے جین ملا دینا، ان کو واپس بیکٹیریا میں اور پھر ممالیہ میں داخل کر دینا۔ صرف اس کو سیکونس کرنے کی ضرورت تھی اور انہوں نے بائیوٹیکنالوجی کا انقلاب برپا کر دیا۔

ڈاوڈنا اور چارپنٹئے کا پیپر بھی ایسا ہی وقت تھا۔ انسانی سٹیم سیل کو حاصل کر لینا (جو سپرم اور بیضہ بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں)۔ اس میں ٹھیک جگہ پر قابلِ اعتماد طریقے سے مرضی کی جینیاتی تبدیلی۔ تبدیل شدہ سٹیم سیل سے سپرم اور بیضہ حاصل کر لینا۔ ان کو ملا کر ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے انسان پیدا کر لینا۔ اور یوں آپ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ انسان حاصل کر لیتے ہیں۔

اس میں کوئی ہاتھ کی صفائی نہیں۔ یہ سب ٹیکنالوجی ہے۔ اس میں سے ہر قدم کے آگے سخت ریگولیشن اور پابندیاں ہیں۔ اس پر سب سے پہلا تجربہ 2015 میں سن یاٹ سن یونیورسٹی میں کیا گیا۔ اس میں کامیابی نہیں ہوئی لیکن اس کا اس قدر منفی ریسپانس آیا کہ نیچر، سیل اور سائنس جیسے جریدوں نے اس کے نتائج چھاپنے سے انکار کر دیا۔ اور اس کی وجہ تجربے میں سیفٹی اور ایتھکس کو ملحوظِ خاطر نہ رکھنا تھا۔ (یہ نتائج غیرمعروف آن لائن جریدے میں شائع ہوئے)۔ اس کے پہلے کامیاب تجربے کا اعلان 2018 میں چین سے کیا گیا۔

اس میں کسی کو شبک نہیں کہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ انسان بنانے کی ٹیکنالوجی تیار ہے۔ اب سوال اخلاقی، سیاسی، سماجی اور قانونی نوعیت کے ہیں۔ سوال ذمہ داری کے ہیں۔

(جاری ہے)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں