باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 24 ستمبر، 2020

ڈارون کی تحقیق (53)


جون 1842 تک ڈارون ایوولیوشن تھیوری کا پینتیس صفحات کا ابتدائی خاکہ بنا چکے تھے۔ فروری 1844 تک یہ مسودہ 231 صفحات کا ہو چکا تھا۔ یہ ایک سائنسی وصیت تھی جو انہوں نے اپنی بیوی ایما کے حوالے کی کہ ان کی موت کی صورت میں اسے شائع کروا دیا جائے۔ “اگر ایک قابل شخص بھی اسے قبول کر لے گا تو سائنس کے لئے ایک بڑا قدم ہو گا”۔ یہ انہوں نے ساتھ رقعے میں لکھا۔

ڈارون سائنسی حلقوں میں عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے لیکن وہ اپنا کام شائع کرنے میں ہچکچا رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ اس پر تنقید ہو سکتی ہے اور یہ بلاجواز خوف نہیں تھا۔ اسی سال کسی نے “نامعلوم مصنف” کے قلم سے کتاب لکھی تھی جس میں اگرچہ ارتقا کی تھیوری تو نہیں بیان کی گئی تھی لیکن کئی ایسے خیالات شامل تھے جس میں انواع کی تبدیلی کا آئیڈیا بھی تھا اور یہ بہت مقبول ہوئی تھی لیکن اُس وقت کی فکری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ کسی نے لکھا تھا، “ایسی کتاب سائنس کی جڑوں میں زہر انڈیل رہی ہے”۔

سائنسی کمیونیٹی میں بھی شدید تنقید کی گئی تھی۔ اور یہ سمجھنے کے لئے ایک اور اہم نکتہ ہے۔ سائنسدان آسان لوگ نہیں۔ آج بھی کوئی اچھوتا خیال پیش کرنا کسی کے لئے سائنسدانوں کی طرف سے غیرشائستہ حملوں کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسا خیال جو ٹھیک نہ لگ رہا ہو، اس سے بے رحمانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ سائنس میں نئے خیالات پر سائنسدانوں کی طرف سے مخالفت کی روایت پرانی رہی ہے اور ایسا کرنا غلط نہیں۔ نئے خیالات کو مشکوک سمجھنا اور تنقید کا نشانہ بنانا کسی شعبے کو غلط سمت میں چلے جانے کو روکتا ہے۔ صرف یہ کہ شواہد مل جانے پر ذہن بدل لینا اور نئے عجیب لگنے والے خیال کو بھی قبول کر لینے کی کسی حد تک ہماری صلاحیت ابھی تک فکر کا سفر ممکن بناتی رہی ہے۔

بہرحال، تبدیلی مشکل ہے۔ ایسے سائنسدان جو اپنے پورے کیرئیر میں ایک طریقے سے سوچتے رہے ہیں، ان کے لئے متضاد انفارمیشن پر آنے والے ردِعمل کئی بار خاصا منفی ہوتا ہے۔ اس لئے نئی تھیوری پیش کرنا خطرہ مول لینا ہے۔ آپ خود کو حملوں کے لئے کھول دیتے ہیں۔ اگرچہ innovation کرنے کے لئے کوئی خاص فول پروف طریقہ نہیں۔ لیکن innovation کا گلا گھونٹ دینے کا طریقہ روایتی فکر کو چیلنج کرنے کو غیرمحفوظ بنا دینا ہے۔ یہ وہ وجہ ہے کہ یہ محض اتفاق نہیں کہ انقلابی ایڈوانس ہمیشہ سے ایسے ماحول میں ہوتے رہے ہیں جہاں کسی غیرروایتی فکر کو برداشت کیا جاتا رہا ہو۔

ارتقا کے بارے میں ڈارون کو ایسے ہی خوف تھے۔ نامعلوم مصنف کی کتاب پر سخت تنقید کرنے والوں میں سے ایک ان کے اچھے دوست ایڈم سیجوِک تھے جو کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر تھے اور انہوں نے ڈارون کو جیولوجی پڑھائی تھی۔ سیجوک نے اس کتاب کو “گندی کتاب” کہا تھا اور پچاسی صفحات پر مشتمل ایک سخت تنقیدی ریویو دیا تھا۔ ڈارون کو خود کو ایسے اٹیک سے محفوظ رہنے کے لئے شواہد کا پہاڑ چاہیے تھا جو ان کی تھیوری کو سپورٹ کر سکے۔ اور اگلے پندرہ سال وہ یہی کرتے رہے۔ اور آخر میں یہی محنت ان کی کامیابی کی وجہ بنی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈارون 1840 اور 1850 کی دہائی میں اپنے آئیڈیاز پر کام کرتے رہے۔ جانوروں کے مشاہدات اور تجربے کرتے رہے۔ یہ تجربے کبوتروں اور سمندری جانوروں پر بھی کئے جاتے رہے اور پودوں پر بھی۔ تجربات کی ایک سیریز انہوں نے یہ معلوم کرنے پر کی کہ بیج سمندری جزائر میں کہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔ انہوں نے پرندوں کی ٹانگوں کے ساتھ لگے ہوئے بیجوں کی تلاش کی۔ ان کے فضلے میں تلاش کی۔ بیج کھانے والی چڑیا کو الو اور عقاب کو کھلایا اور پھر ان کے فضلے کا تجزیہ کیا۔ یہ سٹڈیز اس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھیں کہ بیج اس سے کہیں زیادہ دور تک حرکت کر سکتے ہیں جتنا کہ عام خیال تھا۔

ایک اور مسئلہ جس پر ڈارون نے بہت وقت لگایا، وہ تنوع کا سوال تھا۔ آخر نیچرل سلیکشن میں انواع میں اتنا فرق کیوں؟ یہاں پر انہوں نے ماہرینِ معیشت سے مدد لی جو محنت کی تقسیم کی بات کرتے تھے۔ ایڈم سمتھ نے دکھایا تھا کہ جب لوگ سپیشلائز ہو جائیں تو زیادہ پیداور دے سکتے ہیں۔ اس نے ڈارون کے ذہن میں خیال ڈالا کہ کوئی قطعہ اراضی اس وقت زیادہ زندگی پیدا کر سکتا ہے جب اس میں بسنے والے الگ وسائل سے فائدہ اٹھانے میں سپیشلائز ہوں۔

اس خیال سے ڈارون نے پیش گوئی یہ کی کہ اگر ان کی تھیوری درست ہے تو انہیں ان علاقوں میں زیادہ تنوع ملے گا جہاں پر محدود ذرائع کے لئے مقابلہ زیادہ ہے۔ زیادہ تنوع وسائل سے فائدہ اٹھانے کی سپیشلائزیشن کے خاص ہونے کی وجہ سے ہو گا۔ انہوں نے وہ ڈیٹا اکٹھا کیا جو اس خیال کو سپورٹ کر سکے یا رد کر سکے۔ اس قسم کی فکر ڈارون کا اچھوتا طریقہ تھا۔ جہاں پر دوسرے نیچرلسٹ ارتقا کے لئے فاسلز اور زندہ اشیا سے فیملی ٹری کی ڈویلپمنٹ دیکھ رہے تھے، ڈارون انواع کی ڈسٹریبیوشن اور ان کے آپس کے تعلقات۔

اس کے لئے ڈارون نے دوسروں سے رابطہ کیا۔ یہ ڈاک کے ذریعے تھا۔ نیچرلسٹ، جانور پالنے والے بریڈر اور دوسرے ماہرین سے خط و کتابت کے ذریعے انفارمیشن اکٹھی کی جو وراثت اور ویری ایشن کے بارے میں تھی۔ یہ اپنے خیالات کو عملی مشاہدات کے مقابلے میں ٹیسٹ کرنے کے لئے تھا۔

ڈارون نے 1856 میں اپنی تھیوری اپنے چند قریبی دوستوں کو تفصیل سے بتائی۔ ان میں چالس لائل بھی تھے جو اپنے وقت کے صفِ اول کے جیولوجسٹ تھے اور ہکسلے بھی تھے۔ یہ دوست انہیں ترغیب دے رہے تھے کہ وہ اپنا کام شائع کریں تا کہ کوئی یہ پہلے نہ کر دے۔ ڈارون کو اپنا کام کرتے ہوئے اٹھارہ سال ہو چکے تھے۔

ڈارون نے کتاب لکھنی شروع کی اور مارچ 1858 تک دو تہائی کتاب لکھ چکے تھے۔ انہیں جون میں ایک مسودہ اور ایک خط ملا جو ان کے واقف کار الفریڈ رسل ویلس نے بھیجا تھا۔ ویلس مشرقِ بعید میں کام کر رہے تھے اور یہ پیپر ویلس کی تھیوری آف نیچرل سلیکشن کا خاکہ تھا۔ اور ڈارون کی طرح انہوں نے بھی مالتھس کی آبادی کی تھیوری سے بھی مدد لی تھی۔

ڈارون ہڑبڑا اٹھے۔ ان کے دوست انہیں وارننگ دیتے آئے تھے لیکن اب یہ ہونے لگا تھا۔ ایک اور نیچرلسٹ نے ان کے خیالات کا سب سے اہم پہلو الگ سے دریافت کر لیا تھا۔

ڈارون نے کریڈٹ اپنے تک رکھنے والا نیوٹن کا رویہ نہیں اپنایا بلکہ الفریڈ ویلیس کا مسودہ لائیل کو بھجوا دیا کہ وہ خود اسے دیکھ لیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارتقا کی تھیوری کا کریڈٹ ڈارون کو ہی کیوں دیا گیا؟ ویلیس کے مشاہدات نہ صرف اتنے تفصیلی نہیں تھے بلکہ ان کے تجزیہ بھی محض انواع کی ویری ایشن تک محدود تھا۔

لائیل نے ایک سمجھوتہ کرنے کے لئے جواب دیا۔ وہ یہ کہ ویلیس اور ڈارون، دونوں کا کام بیک وقت سوسائٹی پبلش کر دے گی۔ لائیل اور ہک ان پیپروں سے خلاصہ سوسائٹی کو ایک ہی وقت میں سنا دیں گے۔ یکم جولائی 1858 کو یہ دونوں پیپر ہی تیس کے قریب شرکاء کے سامنے پیش کر دئے گئے۔ نہ ہی ان پر تعریف ہوئی اور نہ ہی تنقید۔ خاموشی رہی۔ اس میٹنگ میں چھ مزید پیپر پڑھے گئے۔ آخری پیپر انگولا کی نباتات پر تھا۔ (معلوم نہیں کہ کتنے لوگ آخر تک جاگ رہے تھے)۔

ویلیس اور ڈارون، دونوں ہی میٹنگ میں موجود نہیں تھے۔ ویلیس اس وقت مشرقِ بعید میں تھے۔ ڈارون بیمار تھے اور اس دوران میں اپنے دوسرے بچے، چارلس وارنگ کی وفات کے بعد اسے دفنا رہے تھے۔ ویلیس کے خیال میں معاملہ منصفانہ طریقے سے نمٹایا گیا تھا۔

لینین سوسائٹی کی اس میٹنگ میں ڈارون کے وہ خیالات منظرِ عام پر آ گئے جس کے لئے انہوں نے بیس سال کام کیا تھا۔ ابتدائی ردِعمل کیا رہا؟ کچھ بھی نہیں۔ جو لوگ اس میٹنگ میں موجود تھے، انہیں پتا بھی نہیں لگا تھا کہ جو انہوں نے سنا ہے، اس کی اہمیت کیا ہے۔ بائیولوجی کے ماہرین یہ سننے کے بعد بھی ناواقف تھے کہ بائیولوجی کی سائنس میں کس قدر بڑا کام کیا جا چکا ہے۔ سوسائٹی کے صدر تھامس بیل نے اس میٹنگ کے بعد کہا “اس سال سائنس میں ہمارے شعبے میں کوئی بھی خاص دریافت نہیں ہوئی”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بات کہہ دی گئی۔ اس کے معنی کیا تھے؟ اس کا سمجھا جانا ابھی باقی تھا۔ اور اس کے لئے ڈارون اپنا ماسٹرپیس مکمل کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

تحریر: وہارا امباکر

 
نوٹ: ساتھ لگی تصویر یکم جولائی 1858 کو ہونے والی لینئن سوسائٹی کی میٹنگ کے ریکارڈ کی جس میں پہلی بار ویلیس اور ڈارون کے پیپر پیش کئے گئے۔

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں