باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 25 ستمبر، 2020

انواع کی ابتدا (54)


“زندگی کو اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کیا ہی شاندار نظارہ ہے۔ ابتدا میں چند یا شاید ایک ہی قسم کی زندگی۔ اور جیسے زمین گریویٹی کے طے شدہ قانون کے تحت گردش کرتی گئی، زمین پر سادہ آغاز سے بہت ہی خوبصورت اور زبردست شکلیں نکلتی گئی جو ارتقا کرتی رہیں اور کر رہی ہیں”۔
یہ اقتباس ڈارون کی مشہور کتاب “اوریجن آف سپیشز” سے ہے جسے بائیولوجی کی سائنس کی تاریخ کا ماسٹرپیس کہا جاتا ہے۔
 
لینین سوسائٹی کی میٹنگ میں تھیوری پیش کئے جانے کے بعد ڈارون نے اپنی اس کتاب پر تیزی سے کام کیا۔ ایک سال کے اندر اندر انہوں نے اپنے کام کو دوبارہ ترتیب دے کر اس کو مکمل کر لیا۔ یہ پہلے سے مختصر تھا اور عام پبلک کے لئے تھا۔ جون 1859 تک وہ اس کو  مکمل کر چکے تھے۔ 24 نومبر 1859 کو یہ کتاب شائع ہو گئی۔

اس کتاب کی کہانی سے ہمارے فکری سفر کی کہانی کا ایک اور دلچسپ پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ انسانی فکر کا ایک اہم پہلو فطرت کے بارے میں ہونے والی دریافتیں ہے اور یہ محض کسی انٹلکچوئل اشرافیہ کے لئے نہیں۔ نئی سوچ اور دریافتوں کے مضمرات کو معاشرے پر اثرانداز ہونے کے لئے ممکنہ حد تک عام فہم ہونا ضروری ہے۔ سائنس میں سٹیفن ہاکنگ کی “وقت کی تاریخ” ہو یا ساگان کی “کاسموس”، جیرڈ ڈائمنڈ، کاہنیمین اور ایسے بہت سے دوسرے اپنے اپنے شعبوں میں کئے گئے کام۔ ان کی اہمیت نئے علم کی تخلیق نہیں بلکہ علم کو عام ذہن تک پہنچانے کی ہے۔ ڈارون کی یہ کتاب بائیولوجی کو عام کرنے والی ایسی ہی کتاب تھی۔

 نکتہ یہ ہے کہ فکر و دانش کسی صفحے پر لکھے الفاظ یا مساوات میں نہیں، معاشرے کے افراد کے ذہنوں میں ہوتی ہے۔ اور اسے ذہنوں تک پہنچانا خود میں سائنس نہیں، ایک آرٹ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کتاب پر آنے والا ری ایکشن سوسائٹی میں پڑھے جانے والے پیپر جیسی خاموشی نہیں تھی۔ یہ کتاب بیسٹ سیلر بن گئی۔ ردِ عمل آیا، ہر طرح کا آیا اور بہت سا آیا۔ ڈارون کے پرانے استاد پروفیسر سیجوک نے لکھا، “میں نے اس کتاب کو پڑھ کر خوشی سے زیادہ تکلیف محسوس کی۔ اس کے کچھ حصوں پر تو بہت افسوس ہوا کیونکہ یہ بالکل جھوٹ ہیں اور یہ ایک بڑی شرارت ہے”۔

لیکن چونکہ یہ تھیوری بڑے مضبوط شواہد پر تھی، اس لئے مجموعی طور پر نامعلوم مصنف کی کتاب جیسا منفی ردِعمل نہیں آیا۔ اس پر اعتراضات ہوئے، مباحث ہوئے۔ اگلی دہائی میں سائنسدانوں کے درمیان اس پر ہونے والی بحث بڑی حد تک طے ہو چکی تھی اور اس کو قبول کر لیا گیا تھا۔ ڈارون کی ارتقا کی تھیوری وکٹورین عہد کی فکر کا حصہ بن چکی تھی۔

ڈارون پہلے بھی سائنس میں شہرت رکھتے تھے لیکن اس کے بعد یہ شہرت ویسے ہو گئی جیسے نیوٹن کی پرنسپیا لکھنے کے بعد ہوئی تھی۔ وہ ایک مقبول عوامی شخصیت بن گئے جنہیں عالمی شہرت اور اعزازات ملنے لگے۔ رائل سوسائٹی سے کوپلے میڈل، آکسفورڈ اور کیمبرج سے اعزازی ڈاکٹریٹ، پروشیا کے بادشاہ کی طرف سے آرڈر آف میرٹ، سینٹ پیٹرزبرگ کی شاہی اکیڈمی آف سائنس، فرانس کی سائنس اکیڈمی اور ماسکو کی امپریل سوسائٹی آف نیچرلسٹ کی ممبرشپ، چرچ آف انگلینڈ کی رکنیت اور پھر جنوبی امریکی مشنری سوسائٹی کی رکنیت۔

نیوٹن کی طرح ہی، ڈارون کے کام کا اثر محض سائنسی تھیوری سے کہیں زیادہ تھا۔ یہ دنیا کے بارے میں سوچنے کا نیا طریقہ تھا۔ ایک مورخ نے لکھا، “ہر جگہ پر ڈارون ازم نیچرل ازم اور ارتقائی فلسفے کا ہم معنی بن گیا۔ یہ مقابلے اور تعاون، آزادی اور غلامی، ترقی اور مایوسی، جنگ اور امن سب کی وضاحت کے لئے تھا۔ اس کی پالیسی لبرل بھی ہو سکتی تھی، سوشلسٹ بھی، کنزرویٹو بھی۔ اس کا نظریہ غیرمذہبی بھی ہو سکتا تھا اور قدامت پسند مذہبی بھی”۔

لیکن سائنس کے نکتہ نظر سے ڈارون کا کام نیوٹن کے کام کی طرح صرف نقطہ آغاز تھا۔ ان کی تھیوری ایک بنیادی اصول وضع کرتی تھی کہ ماحولیاتی پریشر کے جواب میں انواع کیسے بدلتی ہیں لیکن اس وقت کے سائنسدان اس سے بالکل بے خبر تھے کہ وراثت کا آخر مکینزم ہے کیا۔

جس وقت ڈارون کا پیپر لینین سوسائٹی میں پڑھا جا رہا تھا۔ برنو کی خانقاہ میں ایک سائنسدان اور راہب گریگور مینڈیل مٹر کے پودوں پر تجربے کر رہے تھے جس نے وراثت کے قوانین کی وضاحت کی۔ مینڈیل کے کام کی قبولیت میں خاصا وقت لگا اور یہ ڈارون تک کبھی نہیں پہنچا۔

مینڈیل کے کام کی بھی مزید گہرائی میں وضاحت بیسویں صدی کی فزکس میں ترقی سے پہلے ممکن نہیں تھی۔ خاص طور پر کوانٹم تھیوری اور اس کی پراڈکٹ ایکسرے ڈیفریکشن کی تکنیک سے پہلے، جنہوں نے ڈی این اے کے مالیکیول کا تفصیلی سٹرکچر دکھایا اور جینیات کو مالیکیولر سطح پر سمجھنے کے قابل کیا۔ اس کے بعد جا کر سائنسدان سمجھنے کے قابل ہوئے کہ وراثت ہوتی کیسے ہے۔ ارتقا کے نٹ اور بولٹ کیا ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور یہ سب سمجھ بھی ایک ابتدا ہے۔ بائیولوجی زندگی کو ہر سطح پر سمجھنے کی کوشش ہے۔ خلیے کے اندر بائیوکیمیکل ری ایکشن سے لے کر سٹرکچرز تک۔ اس سب کو سمجھ لینا مستقبل قریب میں بھی نہیں ہو گا لیکن زندگی کے مکنیزم کے مرکزی تنظیمی اصول کو سمجھ لینا انیسویں صدی میں کئے گئے اس کام کی وجہ سے ممکن ہوا۔

ڈارون زندگی میں آخر تک کام کرتے رہے۔ ان کا آخری پیپر 1881 میں لکھا گیا جو سبزیوں میں پڑ جانے والے کیڑوں پر تھا۔ اس سال انہیں پہلے ایک ہارٹ اٹیک ہوا اور اٹھارہ اپریل کو دوسرا جس کے اگلے روز صبح چار بجے وہ 73 سال کی عمر میں چل بسے۔ ویلیس کو لکھے ہوئے آخری خط میں انہوں نے لکھا تھا، “زندگی میں میرے پاس سب کچھ ہے جو مجھے خوش اور مطمئن رکھ سکتا ہے لیکن میری زندگی آسان نہیں۔ یہ مضطرب زندگی ہے۔ یہ فکر کی زندگی ہے۔ اس نے مجھے بری طرح تھکا دیا ہے”۔

جس طرح نیوٹن نے ارسطو کے خیالات سے فزکس کو الگ کیا، وہی کام بائیولوجی کے لئے ڈارون کا تھا۔ ان کے بعد ارسطو کی بائیولوجیکل دنیا کا مزید جواز ممکن نہیں رہا تھا۔

(جاری ہے)




1 تبصرہ:

  1. Thanks a lot sir for this wonderful series. I wonder if it's a translation, can you kindly share the original source?
    I'm highly indebted to you for these excellent reads.
    - Qaisar

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں