باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 31 مئی، 2021

فلسطین (15) ۔ تیسری جنگ


یہ چھ روز کی جنگ تھی۔ پہلی برق رفتار سٹرائیک نے مصر، سیریا اور اردن کے زیادہ تر جنگی جہازوں کو زمین پر ہی تباہ کر دیا تھا۔ صحرا کی جنگ میں فضائی برتری کا مطلب یہ تھا کہ زمینی فورس کا ہونے والا مقابلہ یک طرفہ تھا۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی، جزیرہ نما سینا، مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔
یہ جنگ کیوں ہوئی؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک اہم وجہ فلسطینی کمانڈو گروپس کا ابھرنا تھا۔ اسرائیلی حکومت نے دریائے اردن کے پانی کا رخ اپنی طرف موڑنا شروع کر دیا تھا۔ یکم جنوری 1965 کو فتح نے وسطی اسرائیل میں پانی پمپ کرنے والے سٹیشن کو نشانہ بنایا۔ یہ علامتی اہمیت رکھتا تھا۔ ایسے کئی حملے کئے گئے۔ یہ حکومت کے لئے سبکی کا باعث تھے۔
مصر نے اس کو پسند نہیں کیا۔ مصر اپنی معیشت کی بحالی پر توجہ دے رہا تھا اور اسرائیل کو اس وقت چھیڑا گیا تھا جب مصر ایک اور جگہ ملوث تھا۔ یہ اس وقت یمن میں جاری خانہ جنگی تھی ۔
عرب دنیا میں ایک “سرد جنگ” جاری تھی۔ مصر عرب قوم پرستوں کی قیادت کر رہا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں سعودی عرب کنزرویٹو بلاک کی۔ یمن اس لڑائی کا فلیش پوائنٹ تھا۔ یمنی بادشاہت کے خلاف انقلاب نے 1962 میں خانہ جنگی شروع کر دی تھی جس میں مصری فوج پھنسی ہوئی تھی۔ ساٹھ ہزار مصری فوجی اور فضائیہ کا بڑا حصہ یمن میں تھا۔
ان حالات میں مصری فوج نے اسرائیل کی طرف پیشقدمی کی۔ ایسے کئی اقدامات لئے جو جارحانہ تھے۔ اسرائیل کے لئے ایلات کی بندرگاہ بند کر دی۔ ایسا کیوں؟ یہ عجیب فیصلہ لگتا ہے لیکن اس کی ایک وجہ سیریا میں آنے والی نئی ریڈیکل حکومت تھی، جو فلسطینیوں کو مدد دے رہی تھی۔  اسرائیل اور سیریا کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں۔ اپریل 1967 میں اسرائیل نے سیریا کے چھ جنگی طیارے مار گرائے تھے۔ مصر نے سیرین انقلاب میں مدد کی تھی اور سیریا کی بعث پارٹی کو سپورٹ کیا تھا۔ مصر علاقے میں بالادستی کا خواہاں تھا۔ اس کی مدد کے لئے مصر نے سینا میں فوج تعینات کرنا شروع کر دی۔ بہرحال، وجوہات جو بھی رہیں (ان پر کئی آراء ہیں)، سینا میں مصری فوج  کی نقل و حرکت کو دیکھتے ہوئے اسرائیل نے پہلی سٹرائیک کر دی۔ ایک مختصر جنگ نے عرب ممالک کی تین فوجوں کو ملیامیٹ کر دیا اور مشرقِ وسطٰی کا چہرہ بدل دیا۔
یہ جون 1967 میں ہونے والی تیسری عرب اسرائیل جنگ تھی جو چھ روزہ جنگ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسرائیل کے حوالے سے امریکی پالیسی تبدیل ہوتی رہی تھی۔ ٹرومین، آئزن ہاور اور کینیڈی نے فلسطینی مہاجرین کا مسئلہ حل کرنے کے لئے اسرائیل پر زور دیا تھا۔ آئزن ہاور نے کامیابی سے زور دے کر سینا اور غزہ کے علاقے اسرائیل سے خالی کروائے تھے۔ کینیڈی نے اسرائیل کو نیوکلئیر پاور بننے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ وہ مصر کے ناصر کو علاقے میں کمیونزم کے خلاف اتحادی کے طور پر دیکھتے تھے۔اس کی وجہ عراق میں عبدالکریم قاسم کی کمیونسٹ حکومت کی آمد اور وہاں پر سوویت یونین کا اثر جبکہ مصر کی ان کے خلاف شدید مخالفت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یمن کی 1962 کی خانہ جنگی میں حالات بدل گئے۔ یہ علاقائی تنازعہ بن گیا۔ سوویت یونین نے یمن کی حکومت کی حمایت کی جن کے ساتھ ملکر مصری حکومت لڑ رہی تھی جبکہ امریکہ، برطانیہ، اسرائیل نے شاہی خاندان کی جن کی حمایت سعودی عرب کر رہا تھا۔
مصر اور امریکہ کے تعلقات اس دوران سردمہری کا شکار ہو گئے۔ کینیڈی کے بعد آنے والے صدر جانسن اسرائیل کے حامی تھے۔ یہ سب وجوہات تھیں جن کے باعث امریکہ کی 1967 میں امریکی حمایت اسرائیل کی طرف تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوویت یونین اس جنگ میں عرب کے ساتھ تھا۔ اقوامِ متحدہ میں جنگ بندی کی سرتوڑ کوشش کر رہا تھا۔ اسرائیل کی جنگ میں واضح برتری دیکھ کر امریکہ قرارداد کی منظوری میں تاخیر کر رہا تھا۔   
سوویت یونین نے جنگ بندی کی قرارداد کا تیسرا ڈرافٹ نو جون کو ساڑھے بارہ بجے پیش کیا جس میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ تھا۔ یہ پچھلے چھ روز میں ہونے والا گیارہواں سیشن تھا۔ اسرائیلی فوج اپنے پورے ملک سے بھی دگنے علاقے پر قبضہ کر چکی تھی۔ اس وقت گولان کی پہاڑیوں پر سیریا کی فوج کو شکست دے رہی تھی اور دمشق کی طرف رواں دواں تھی۔ دمشق چالیس میل دور رہ گیا تھا۔ سوویت یونین جنگ کو جلد سے جلد بند کروانے کے لئے پوری کوشش میں تھا۔ سوویت سفیر نکولائی فیڈورینکو اس عمل میں رکاوٹ ڈالنے والوں سے زبانی دست و گریباں تھے۔ وہ اس خطے میں اپنے سب سے بہترین دوست ملک سیریا کے لئے فکرمند تھے۔ یہ قرارداد 235 تھی جس کو اتفاقِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔ جنگ بندی اس سے اگلی روز صبح ہو گئی۔
پڑوسی ممالک کا بڑا علاقہ اب اسرائیل کے پاس تھا۔ مصر، اردن اور سیریا ۔۔۔ تینوں ممالک نے اپنی زمین کھو دی تھی۔ اسرائیل اب سویز نہر کے مشرقی کنارے تک پھیل چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس جنگ سے جمال عبدالناصر کی شہرت کو نقصان پہنچا۔ اسرائیل نے جس علاقے کو فتح کیا تھا، اس میں مشرقی یروشلم اور گولان کے رہائشی عربوں کو مکمل اسرائیلی شہریت کی پیشکش کر دی۔ (کچھ نے اس کو قبول کیا، زیادہ تر نے نہیں)۔ مغربی کنارے کی دس لاکھ عرب آبادی میں سے تین لاکھ کو اپنا علاقہ چھوڑنا پڑا۔ زیادہ تر نے اردن میں رہائش اختیار کر لی۔ گولان سے ایک لاکھ افراد سیریا کی طرف چلے گئے۔ غزہ سے ستر ہزار فلسطینیوں نے نقل مکانی کر کے مصر یا دوسرے علاقوں میں رہائش اختیار کر لی۔
نکلنے والوں میں سے اکثریت کو اسرائیل نے واپس نہیں آنے دیا۔ بعد میں ایک لاکھ بیس ہزار نے واپس آنے کی درخواست دی۔ صرف سترہ ہزار کو واپس آنے کی اجازت ملی۔
موشے دایان اور شیرون نے سینا کو آباد کرنے کا پلان کیا۔ اس میں نئی بستیاں بسائی گئیں۔ بحیرہ روم کے کنارے دو لاکھ آبادی کا یمات کا شہر بسانے کا پلان بنایا۔ (جب تک اسرائیل نے یہ علاقہ خالی کیا، اس کی آبادی تین ہزار تک پہنچی تھی)۔ جب اسرائیل مصر صلح ہوئی تو اسرائیل کو یہ بستیاں چھوڑنا پڑیں۔
آٹھ سال تک نہر سویز بند رہی۔ یورپ اور ایشیا کا تجارتی شارٹ کٹ منقطع ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس جنگ نے فلسطینی قومی شعور اور مزاحمت کو مہمیز دی۔ جیسا کہ ایک مبصر کا تبصرہ تھا، “اس جنگ کا مرکزی تضاد یہ تھا کہ اس میں عربوں کو شکست دے کر اسرائیل نے فلسطین کو زندہ کر دیا تھا”۔
اس کے نتیجے میں دو فلسطینی تنظیمیں منظرِ عام پر آئیں۔
(جاری ہے)

ساتھ لگی تصویر میں بائیں طرف اسرائیل کا نقشہ چھ روزہ جنگ سے پہلے اور دائیں طرف اس جنگ کے بعد۔ ہلکے سبز رنگ میں وہ علاقے ہیں جو اسرائیل نے اس جنگ میں حاصل کئے۔

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں