باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 31 مئی، 2021

ْ فلسطین (17) ۔ فلسطینی تحریکیں


“عرب قوم پرست تحریک” کے بانی جارج حبش تھے۔ یہ بیروت سے پڑھے ہوئے ڈاکٹر تھے جنہیں لد سے بے دخل کیا گیا تھا۔ جارج حبش نے نوجوانوں کے ساتھ ملکر یہ تنظیم بنائی تھی اور یہ تنظیم مارکسسٹ خیالات کی تھی۔ اس کو مصر کی حمایت حاصل تھی۔ حبش اور ان کے کامریڈ عرب نیشلسٹ تھے لیکن 1967 میں ہونے والی عربوں کی شکستِ فاش کے بعد انہوں عرب ریاستوں سے توقع چھوڑ دی تھی۔ جنگ کے بعد اس تحریک کو ختم کر کے آزادی فلسطین کی پارٹی PFLP بنائی۔ اس جماعت نے ہوائی جہازوں کے اغوا کرنے سے شہرت پائی۔ بائیں بازو کی سیاست میں یہ تحریک مقبول رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری جماعت فتح تھی۔ اس نے سیاست میں غیرنظریاتی اپروچ رکھی۔ عرب قوم پرست، کمیونسٹ، لیفٹسٹ، اسلامسٹ گروہوں سے الگ راستہ لیا۔ نظریاتی جماعتوں کا نعرہ تھا کہ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے سے پہلے معاشرتی تبدیلی لائی جائے اور پھر کچھ اور کیا جائے۔ فتح کے ساتھ ایسے کسی نظریاتی ساز و سامان کا بوجھ نہیں تھا۔ اس کے چارٹر میں معیشت، سماج، مذہب، طبقات، قوم وغیرہ کسی چیز کا ذکر نہیں تھا۔ اس کا نعرہ سادہ تھا اور یہ صرف فلسطین کاز کا تھا۔ سادہ اور فوری ایکشن۔ یہ کسی بھی نظریاتی وابستگی والے کے لئے پرکشش تھا اور اس گروپ نے جلد ہی بہت مقبولیت حاصل کر لی جس میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے۔
یکم جنوری 1965 کو وسطی اسرائیل میں پانی کے پمپ کو سبوتاژ کیا جانے والا ایکشن اس تنظیم کا پہلا عملی قدم تھا۔
مصر نے 1964 میں تنظیم آزادی فلسطین (PLO) قائم کروائی تھی لیکن 1967 کی جنگ کے بعد مصر کی بنائی گئی قیادت کو جلد ہی ایک طرف کر دیا گیا اور فلسطینی گروپس نے اس کو ٹیک اوور کر لیا۔ سب سے بڑے گروپ فتح کے سربراہ یاسر عرفات 1969 میں اس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چئیرمین بن گئے۔ یہ عہدہ انہوں نے 2004 میں اپنی وفات تک اپنے پاس رکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اسرائیل کے لئے یہ ایک عجیب ستم ظریفی تھی۔ 1967 جنگ میں پڑوسیوں کو کچل دینا اس کی بڑی کامیابی تھی لیکن اس کے ساتھ فلسطینیوں کی واپسی اس کے لئے ناخوشگوار تھی۔ فلسطینیوں کا غائب ہو جانا صیہونی پراجیکٹ کی آخری فتح ہوتی۔ بن گوریان کا کہنا تھا کہ “بوڑھے مر جائیں گے، نوجوان بھول جائیں گے”۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اگرچہ یہ اسرائیل کے لئے کوئی عسکری خطرہ نہیں تھے لیکن یہ چیلنج ایک اور طرز کا تھا۔ فلسطین کا نام ہی صیہونی انتہاپسندوں کے لئے چیلنج تھا۔ اور اس کو ختم کرنے کی کوشش سالہاسال کی گئی تھی۔ اقوامِ متحدہ کی قرادادوں سے لے کر عالمی سیاست تک اس تنازعے کو عرب اسرائیل تنازعے کے طور پر دیکھا جاتا رہا تھا۔ عربوں کے پس منظر میں جانے کا مطلب فلسطینیوں کے نام کا واپس آ جانا تھا۔ اور یہ ایک دردسر تھا۔
ایڈورڈ سعید کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کی فتح “خود اپنی کہانی بیان کرنے کی اجازت” تھی۔ عرب دنیا میں اس کو تقویت اس وقت ملی جب مارچ 1968 میں اسرائیل نے اردن کے دیہات کرامہ پر پندرہ ہزار کی فوج سے حملہ کیا۔ یہ فلسطینیوں کا تربیتی مرکز ختم کرنے کی کوشش تھی۔ حملہ آوروں کو غیرمتوقع طور پر اردن کی آرمی اور تنظیمِ آزادی فلسطین کے جنگجووٗں کی طرف سے سخت مزاحمت ملی۔ اس میں دو سو اسرائیلی فوجی مارے گئے۔ کئی ٹینک اور بکتربند گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ ناقابلِ شکست سمجھی جانے والی اسرائیلی آرمی کے لئے یہ بڑا دھچکا تھا جس میں اسرائیلی فوج کو پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔
اگرچہ اس میں زیادہ کردار اردن کی آرٹلری اور بکتربند دستوں کا تھا لیکن کرامہ میں لڑنےے والے فلسطینیوں نے توجہ حاصل کی۔ چھ روزہ جنگ میں عربوں کو شرمندگی اٹھانا پڑی تھی۔ لیکن اب، اسرائیلی فوج کی معرکے میں پسپائی عربوں کے وقار کی بحالی کے لئے اہم تھی۔ اس نے فلسطینی مزاحمتی تحریک کو عرب دنیا کا ہیرو بنا دیا۔ اور ان کو مرکزی سٹیج پر لے آئی۔
البتہ، پی ایل او کسی قسم کا عسکری چیلنج پیش نہیں کر سکتی تھی۔ اس کا دوبدو یا روایتی لڑائی میں کھڑے ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اور ان کے پاس گوریلا جنگ کے لئے بھی کوئی اچھی حکمت عملی نہیں تھی۔
اس کی کامیابی ڈپلومیسی میں رہی۔ اس نے فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم کی حیثیت اختیار کر لی۔ عرب لیگ نے یہ حیثیت باقاعدہ طور پر 1974 میں تسلیم کر لی۔ یاسر عرفات کو اقوامِ متحدہ میں بولنے کے لئے بلایا گیا۔ یہ فلسطینی تاریخ کی سب سے بڑی سفارتی کامیابی تھی۔ دہائیوں تک ان کی شناخت کا انکار کئے جانے کے بعد یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنگلہ دیش ستمبر 1974 کو اقوامِ متحدہ کا ممبر بنا تھا۔ یاسر عرفات نے تقریر کا آغاز بنگلہ دیش اور گنی بساوٗ کو مبارک دے کر کیا اور امید ظاہر کی کہ جیسے ان ممالک کو اپنی زمین پر آزادی ملی ہے، ویسے ہی جلد زمبابوے، نمیبیا اور فلسطین کو بھی ملے گی۔ پھر انہوں نے 1885 سے لے کر اس وقت تک فلسطین کی کہانی سنائی۔ تقریر کا اختتام ان الفاظ سے کیا۔ “ہمیں آزادی کا حق چاہیے۔ میرے ایک ہاتھ میں زیتون کی شاخ ہے، دوسرے میں آزادی کے لئے لڑنے کے لئے بندوق۔ اس زیتون کی شاخ کو گرنے نہ دینا۔ فلسطین میں جنگ کا شعلہ بھڑک رہا ہے۔ اور فلسطین ہی ہے جہاں سے پائیدار امن پیدا ہو گا”۔ ان الفاظ کے ساتھ انہوں نے یہ تقریر تالیوں کی گونج میں ختم کی۔
اہم چیز الفاظ نہیں تھے بلکہ یہ کہ فلسطین کی کہانی اردن یا مصر یا عرب لیگ یا کوئی اور نہیں بلکہ ایک فلسطینی نے سنائی تھی۔ پچیس برس کے انتظار کے بعد فلسطین کو دنیا کے آگے “خود اپنی کہانی بیان کرنے کی اجازت” ملی تھی۔  
(جاری ہے)


ساتھ لگی تصویر 1974 کی، جب یاسر عرفات نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کی۔




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں