دوسری جنگِ عظیم کے وقت 1941 میں امریکہ میں آفس آف سائنٹفک ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے نام سے ادارہ قائم کیا گیا تھا جس نے ملٹری ٹیکنالوجی کی ایجادات مٰں اہم کردار ادا کیا۔ یہ ایجنسی سائنسدانوں کو بھرتی کرتی تھی جو تحقیق کرتے تھے۔ بنیادی تحقیق زمانہ امن کا تعیش ہے۔ جنگ میں فوری اور کسی خاص مقصد کے تحت تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ نئے ہتھیار بنائے جانے ہوتے ہیں۔ میدانِ جنگ میں اور افواج کو برتری کے لئے نئی ٹیکنالوجی درکار ہوتی ہے۔ اخبارات اس کو “جادوگروں کی جنگ” کہتے تھے۔ اور اس کو جیتنے کے لئے سائنس کے جادوگروں کی ضرورت تھی۔
سائنس کے یہ فسوں کار حیرت انگیز جادوئی ٹیکنالوجی دریافت کر چکے تھے۔ فزسسٹ نے ریڈار، سونار، آبی ٹینک، ریڈیو سینس کرنے والے بم بنائے تھے۔ کیمسٹ نے مہلک کیمیائی ہتھیار بنائے تھے۔ بائیولوجسٹ بلند مقامات پر اور سمندر میں رہنے کے طریقے تلاش کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ریاضی جیسا علم بھی اس میدان میں جوہر دکھا رہا تھا۔ ملٹری میں انفارمیشن کی ترسیل کے کوڈ توڑے رہے تھے۔
“مقصد کی خاطر تحقیق” کا سب سے بڑا شاہکار مین ہٹن پراجیکٹ تھا جس سے ایٹم بم تک پہنچا گیا۔ سات اگست 1945 کو ہیروشیما کی تباہی اس پراجیکٹ کی کامیابی نے ممکن بنائی۔ اس پر نیویارک ٹائمز نے لکھا، “تین سالوں میں مشترک کوشش نے وہ بنا لیا جس کو بنانے میں دہائیاں لگ جاتیں۔ ایک حدف حاصل کیا جانا تھا، اس کو ٹیم ورک سے حل کیا گیا۔ پلان بنائے گئے۔ سمت طے کی گئی اور کام ہو گیا۔ “تجسس کی خاطر تحقیق” جیسے مشغلے کامیابیاں نہیں لاتے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس وقت کی سائنسی تحقیق کا موڈ یہی بن چکا تھا۔ مین ہٹن پراجیکٹ نے سائنسی دریافت کا روایتی ماڈل الٹا دیا تھا۔ جیسا کہ ٹائمز نے لکھا تھا کہ اس بم کو کسی “مبہم سچ کی کھوج کرنے والے پروفیسر” نے نہیں بنایا تھا۔ یہ کامیابی ایک خاص ٹارگٹ کے حصول کے لئے بنائی گئی تحقیقاتی ٹیم کی کاوش تھی۔ سائنسی تحقیق کی گورننس کا ماڈل طے شدہ مینڈیٹ، طے شدہ ٹائم لائن اور طے شدہ مقصد کے حصول کے لئے ہونا چاہیے۔ جنگ کی سائنس میں یہ طریقہ انتہائی کامیاب رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ہر کوئی اس کا قائل نہیں تھا۔ وینور بش نے امریکی صدر کو 1945 میں لکھا۔
“بنیادی تحقیق کسی عملی مقصد کو حاصل کرنے کا ٹارگٹ بنائے بغیر کی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ عام علم میں اضافہ ہے۔ قدرت اور اس کے قوانین کو سمجھنا ہے۔ اور اس کے بعد ہی یہ عام علم اہم اور بڑے عملی مسائل کو حل کرنے کے بھی کام آتا ہے۔ بنیادی تحقیق نئے علم کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ ہمیں سائنسی سرمایہ فراہم کرتی ہے، جس کو استعمال کر کے فوائد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کی ترقی کی رفتار طے کرتی ہے۔ انیسویں صدی میں یورپی سائنسدانوں نے بنیادی دریافتیں کی تھیں جس وجہ سے ٹیکنیکل آرٹ میں بڑی ترقی ممکن ہوئی۔ ایسی قوم جو سائنس کی نئی بنیادی تحقیق کے لئے دوسروں پر منحصر ہو، تیزرفتار صنعتی ترقی بھی نہیں کر پائے گی اور اس کی عالمی تجارت میں پوزیشن بھی کمزور پڑ جائے گی۔ مکنیکل مہارت اتنی اہم نہیں۔ مین ہٹن پراجیکٹ کی کامیابی سے غلط نتیجہ نکال لینا آسان ہے۔ لیکن یہ ایسی بنیادی سائنس کے کندھوں پر ہوا تھا جس نے ایٹم کی نیچر اور توانائی کے تعلق کا علم غیرمقفل کیا تھا۔ اور یہ تمام تحقیق کسی خاص مقصد اور مینڈیٹ کے بغیر تھی۔ اس تحقیق کا کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس سے کیا نتیجہ نکلے گا۔ ایٹم بم نے اپنی فزیکل جنم لاس ایلاموس میں ہوا تھا لیکن ذہنی اعتبار سے اس کی جڑیں جنگ سے پہلے یورپ میں ہونے والی فزکس اور کیمسٹری کی تحقیق میں تھیں۔ فلسفانہ طور پر، امریکی سائنس درآمد کی گئی تھی”۔
وینیوار بش سائنس کے جس ماڈل کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے، یہ جنگ کی سائنس کا برعکس تھا۔ اور ان کی بات سیاسی حلقوں میں موثر رہی۔ امریکہ میں نیشنل سائنس فاونڈیشن 1950 میں قائم کی گئی جو بش کے پیشکردہ ماڈل کے تحت تحقیق کا ڈیزائن تھا۔ طویل مدت اور بنیادی سائنسی تحقیق پر فوکس، نہ کہ کسی خاص موضوع پر۔ اور یہ امریکہ میں میڈیکل ریسرچ کا ڈیزائن بنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ دوسری طرف، لاسکر کی تنظیم کے لئے یہ ایک مسئلہ تھا۔ ان کا موقف تھا کہ “کینسر کے خلاف جنگ” صرف ایک ایجنڈا کے تحت کی جائے۔ ان کا مطمع نظر کینسر کے خلاف مین ہٹن طرز کا پراجیکٹ تھا۔ آئیڈیا یہ تھا کہ کینسر کے بنیادی سوالات حل کئے بغیر ہی اس پر حملہ آور ہوا جا سکتا ہے۔ آخرکار، فاربر نے لیوکیمیا کے ابتدائی ٹرائل اسی طرح سے ہی کئے تھے۔ “کیا میں کھانا کھانے سے انکار کر دوں کیونکہ میں نظامِ انہضام کو نہیں سمجھتا؟ کیا میں کینسر پر پوری قوت سے حملہ آور نہ ہوں کیونکہ میں نے اس کے بنیادی خلیاتی مکینزم کو حل نہیں کیا؟”۔
یہ سائنس کے دو پیراڈائم کی لڑائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاسکر کی تنظیم نے زبردست مباحث کے بعد اور سیاسی لابی کر کے امریکی سینیٹ سے سپورٹ حاصل کر لی۔ نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ کو کیموتھراپی کی ٹارگٹڈ ادویات بنانے کے لئے فنڈز کی منظوری 1954 میں مل گئی۔ ہر سال دس لاکھ چوہوں پر مختلف کیمیکلز کے ذریعے تجربات کئے جانے لگے۔ اگلے دس برس میں 82700 مصنوعی کیمیکلز، 115000 خمیر ہوئی مصنوعات اور 17200 نباتاتی ادویات کی مدد سے اس یونٹ نے تجربات کئے۔
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں